تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی
Appearance
تڑپ کے رات بسر کی جو اک مہم سر کی
چھری تھی میرے لیے جو شکن تھی بستر کی
عرق عرق ہیں جو گرمی سے روز محشر کی
پناہ ڈھونڈتے ہیں میرے دامن تر کی
ہوا گمان اسی شوخ سست پیماں کا
اگر ہوا سے بھی زنجیر ہل گئی در کی
اسی طرف ترے قرباں نگاہ شرم آلود
مجھی پہ تیز ہو یہ باڑھ کند خنجر کی
خرام وہ جو ہلا دے جگر فرشتوں کا
نگاہ وہ جو الٹ دے صفوں کو محشر کی
سجائی حضرت واعظ نے کس تکلف سے
متاع زہد و ورع سیڑھیوں پہ منبر کی
عبور بحر حقیقت سے جب نہیں ممکن
کنارے بیٹھ کے لہریں گنوں سمندر کی
سنے گا کون سنی جائے گی صفیؔ کس سے
تمہاری رام کہانی یہ زندگی بھر کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |