Jump to content

تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کا

From Wikisource
تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کا
by سراج اورنگ آبادی
294423تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کاسراج اورنگ آبادی

تھا بہانہ مجھے زنجیر کے ہل جانے کا
چھوڑ دیو اب تو ہوا شوق نکل جانے کا

سنگ دل نے دل نازک کوں مرے چور کیا
کیا ارادہ تھا اسے شیشہ محل جانے کا

مت کرو شمع کوں بدنام جلاتی وو نہیں
آپ سیں شوق پتنگوں کوں ہے جل جانے کا

آفریں دل کوں مرے خوب بجا کام آیا
سچ سپاہی کو بڑا ننگ ہے ٹل جانے کا

شعلہ رو جام بکف بزم میں آتا ہے سراجؔ
گردن شمع کوں کیا باک ہے ڈھل جانے کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.