تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ
تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ
اب وہی ہے لالۂ زرد خزان ریختہ
آگے کچھوے کی کماں کے قدر کیا اس کی رہی
تھی فرید آبادی اپنی گو کمان ریختہ
خشک کرتے ہیں جو فکر خشک سے اپنا دماغ
جانتے ہیں اس کو مغز ستخوان ریختہ
پیچ دے دے لفظ و معنی کو بناتے ہیں کلفت
اور وہ پھر اس پہ رکھتے ہیں گمان ریختہ
فہم میں اتنا نہیں آتا بحکم رائے پست
اس بلندی سے گھٹی جاتی ہے شان ریختہ
خوان یغما بن کے پہنچا ہر کس و ناکس کے ہاتھ
نطع سلطاں جو تھا مخصوص خوان ریختہ
ہے رگ ابر بہاری ہاتھ میں میرے قلم
رشک جنت جس سے ہے یہ گلستان ریختہ
فارسی اب ہو گئی ہے ننگ اس کے واسطے
فارسی کا ننگ تھا جیسے قرآن ریختہ
چاند تارے کا دوپٹا میں دیا اس کو بنا
ورنہ اس زینت سے کب تھا آسمان ریختہ
رفتہ رفتہ ہائے اس کا اور عالم ہو گیا
نظم سے اپنی گرا نظم بیان ریختہ
جب سے معنی بندی کا چرچا ہوا اے مصحفیؔ
خلطے میں جاتا رہا حسن زبان ریختہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |