تہمت حسرت پرواز نہ مجھ پر باندھے
تہمت حسرت پرواز نہ مجھ پر باندھے
وجہ کیا کھول کے صیاد نے پھر پر باندھے
باغباں گھات میں صیاد ہمیشہ موجود
آشیاں باغ میں بلبل کہو کیوں کر باندھے
جو چھری دیکھ کے قصاب کی تھراتے تھے
شان حق ہے وہی اب پھرتے ہیں خنجر باندھے
کل کیا تھا جو مرے چاک گریباں میں رفو
اس خطا پر گئے ہیں آج رفو گر باندھے
ہو چکا تھا جو مرے تیز پری سے آگاہ
چست کر کے مرے صیاد نے شہ پر باندھے
شعرا کھائیں گے کیا کیا نہ ابھی تو دھوکے
سرو باندھے کوئی اس قد کو صنوبر باندھے
معجزہ لب ترا گویا کرے اے رشک کلیم
جو زباں سحر سے یہ چشم فسوں گر باندھے
مطمئن بیٹھ تو صیاد نہ کر قید شدید
ہوں میں پابند محبت ترا بے پر باندھے
باغ عالم میں اسی کے لیے ہے نشو و نما
صورت غنچہ رہے گانٹھ میں جو زر باندھے
بوسہ مانگا جو شب وصل تو بولا ہنس کر
کہیں ایسا نہ ہو ہر روز کی تو کر باندھے
دل کی بیتابی سے ٹانکے مرے سب ٹوٹ گئے
پٹی جراح کہو زخم پہ کیوں کر باندھے
لے تو جائے گا خط شوق مگر رشک یہ ہے
آشیاں بام پر اس کے نہ کبوتر باندھے
امتی کیا کریں الجوع نہ چلائیں اگر
بھوک میں جبکہ نبی پیٹ پہ پتھر باندھے
افترا کرنے میں طوفان ہے وہ شوخ ظریف
توتیا تازہ کوئی اور نہ مجھ پر باندھے
مجھ سا محرم ترے محرم کا نہ ہوگا کوئی
بیشتر کھول دیے بند اور اکثر باندھے
دست صنعت سے بنے اس کے اگر تجھ سا بت
کیوں ہوا اپنی خدائی کی نہ آذر باندھے
شاعری کے لئے لازم ہے تلازم نہ چھٹے
لعل لب کو ترے تو دانتوں کو گوہر باندھے
پائے رفتار اگر ہوتے تو چلتا پھرتا
رندؔ مردا سا پڑا رہتا نہ یوں سر باندھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |