تیری ہر اک بات ہے نشتر نہ چھیڑ
تیری ہر اک بات ہے نشتر نہ چھیڑ
پکا پھوڑا ہوں میں اے دل بر نہ چھیڑ
میں اگر رویا تو کیا ہاتھ آئے گا
اشک کے قطرے نہیں گوہر نہ چھیڑ
منہ سے کہہ بیٹھیں گے جو ہو جائے گا
ہم سڑے سودائیوں سے ڈر نہ چھیڑ
تیرے قدموں سے لگا ہوں رحم کر
ٹھوکروں سے او بت خود سر نہ چھیڑ
شیشۂ دل چور ہو جائے گا یار
ہے کلام سخت بھی پتھر نہ چھیڑ
خوف کر ہم دل جلوں کی آہ سے
چھیڑنا ہم کو نہیں بہتر نہ چھیڑ
بھڑ کا چھتا ہے دل سوراخ دار
اس کی آہیں طیش ہیں دلبر نہ چھیڑ
دست نازک کو نہ پہنچے کوئی رنج
جھاڑ کانٹوں کا ہوں میں لاغر نہ چھیڑ
بے مزا باتوں سے دل اکتا گیا
چھیڑے سے اب دم ہے ہونٹوں پر نہ چھیڑ
بوئے خوں آتی ہے اس تقریر سے
ذکر غیروں کا مرے منہ پر نہ چھیڑ
وے کہ روئے گا ہنسی اچھی نہیں
چھیڑ میں کچھ ہو نہ جائے شر نہ چھیڑ
تیری آہیں یار کو ناساز ہیں
ساز اپنا اے دل مضطر نہ چھیڑ
حشر برپا کر کے لیٹا ہوں ابھی
سونے دے او فتنۂ محشر نہ چھیڑ
کہہ وہ مشاطہ سے افعی ہے وہ زلف
اس کے کاٹے کا نہیں منتر نہ چھیڑ
روئے گا ڈاڑھی کو ڈاڑھیں مار کر
محتسب رندوں کو منہ چڑھ کر نہ چھیڑ
خوش نہ ہوگا کوئی سوتا چونک کر
بحرؔ تو غافل کو سمجھا کر نہ چھیڑ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |