تیرے در سے میں اٹھا لیکن نہ میرا دل اٹھا
Appearance
تیرے در سے میں اٹھا لیکن نہ میرا دل اٹھا
چھوڑ کر ہو جس طرح کاسہ کوئی سائل اٹھا
قیس کیا جانے کہ میرا دیکھنا منظور تھا
خود بخود ہو جب ہوا سے پردۂ محمل اٹھا
گریہ نے پہلے ہی اپنا کر رکھا تھا بندوبست
میں اٹھا بھی واں سے چلنے کو تو پا در گل اٹھا
بوسۂ عارض مجھے دیتے ہوئے ڈرتا ہے کیوں
لونگا کیا نوک زباں سے تری رخ کا تل اٹھا
جب اٹھا خنجر نہ اس سے اس ادا پر مر گئے
ہم سے بھی گویا نہ بار منت قاتل اٹھا
شکوۂ بار غم ہجراں ہے خط میں مندرج
نامہ بر کب ہو کے میرے نامی کا حائل اٹھا
غیر نے آ کر نہیں کی گدگدی گر خواب میں
نیند سے کیوں اس طرح ہنستا ہوا کھل کھل اٹھا
گرچہ رکھتا ہوں کہیں اور پاؤں پڑتا ہے کہیں
پر غنیمت ہے کہ ہے منہ جانب منزل اٹھا
اشک گو آتش نہیں ناظمؔ مگر تیزاب ہے
دیکھ چشم تر سے اپنی آستیں غافل اٹھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |