تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا
تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا
کی ذرا دست جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تا بہ داماں رہ گیا
دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادۂ راہ بیاباں رہ گیا
قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردن پہ احساں رہ گیا
ہم تو پہنچے بزم جاناں تک مگر
شکوۂ بیداد درباں رہ گیا
کیا قیامت ہے کہ کوئے یار سے
ہم تو نکلے اور ارماں رہ گیا
دوسروں پر کیا کھلے راز دہن
جبکہ خود صانع سے پنہاں رہ گیا
جذبۂ دل کا ذرا دیکھو اثر
تیر نکلا بھی تو پیکاں رہ گیا
جامۂ ہستی بھی اب تن پر نہیں
دیکھ وحشی تیرا عریاں رہ گیا
ضعف مرنے بھی نہیں دیتا مجھے
میں اجل سے بھی تو پنہاں رہ گیا
اے جنوں تجھ سے سمجھ لوں گا اگر
ایک بھی تار گریباں رہ گیا
حسن چمکا یار کا اب آفتاب
اک چراغ زیر داماں رہ گیا
لوگ پہنچے منزل مقصود تک
میں جرس کی طرح نالاں رہ گیا
یاد رکھنا دوستو اس بزم میں
آ کے شبلیؔ بھی غزل خواں رہ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |