تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے
Appearance
تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے
یا رب اس گھر میں جو آوے نہ وہ مہماں نکلے
نیک و بد میں جو نہیں جنگ عدم میں تو بھلا
کیوں گل و خار بہم دست و گریباں نکلے
دست چالاک جنوں سینہ کو بھی کر دے چاک
تا کہیں پہلو سے میرے دل نالاں نکلے
کون سی رات وہ ہووے کہ جو آوے شب وصل
کون سا روز وہ ہو جو شب ہجراں نکلے
گلشن دل میں بھی تھی اپنی کچھ الٹی تاثیر
تخم امید جو بوئے گل حرماں نکلے
کر نظر رخ کو ترے کفر سے نکلے کافر
زلف کو دیکھ تری دیں سے مسلماں نکلے
جتنا کہتے ہیں نکلتا ہے حسنؔ گھر سے ترے
غصے ہو ہو یہی کہتا ہے ابھی ہاں نکلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |