تیز ہے پینے میں ہو جائے گی آسانی مجھے
تیز ہے پینے میں ہو جائے گی آسانی مجھے
زمزمی سے دے دے زاہد تو ذرا پانی مجھے
دیکھنا نازک بھی ہیں کمسن بھی ہیں بھولے بھی ہیں
شام سے سمجھا رہی ہے ان کی نادانی مجھے
بات بگڑی وصل میں بگڑی جو تو اے زلف یار
کچھ پریشانی تجھے ہے کچھ پریشانی مجھے
ہاتھ اٹھا کر رہ گئے آنکھیں جھکا کر رہ گئے
تیغ عریاں کی پسند آئی جو عریانی مجھے
بن گیا ہوں آئنہ اے جلوہ ہائے برق طور
مل گئی ہے ان کی آئینے کی حیرانی مجھے
آپ اسے درباں بتائیں عذر مجھ کو کچھ نہیں
سونپئے گھر غیر کو اپنی نگہبانی مجھے
خوب روتا ہوں بگولوں سے لپٹ کر دشت میں
یاد آتی ہے جو اپنے گھر کی ویرانی مجھے
فصل گل میں رنگ لایا ہے شباب دخت رز
چھیڑتی ہے آ کے راتوں کو یہ مستانی مجھے
بول اٹھا جوبن کسی سے بھی نہیں دبنے کا میں
سونپئے سرکار اب اپنی نگہبانی مجھے
راز سربستہ رہا کب چاک دامانی کا حال
اے صبا دکھلا نہ اپنی پاک دامانی مجھے
وائے قسمت پڑ گئی کیسی گرہ تقدیر میں
عقدۂ مشکل نظر آتی ہے آسانی مجھے
اب کہاں تقدیر میں ہیں گھونٹ شہد و شیر کے
یاد آتی ہے کسی شے کی فراوانی مجھے
چشم رحم اے ساقیٔ کوثر کہ اب ملتا نہیں
تشنگان کربلا کے نام پر پانی مجھے
شاہ دوراں حضرت حامدؔ علی خاں کے سوا
کون ہے جس کی توجہ سے ہو آسانی مجھے
روز افزوں ہو ترقی دولت و اقبال کی
اور مل جائے در دولت کی دربانی مجھے
چاہتا ہے قیس سے اچھی رہے شکل ریاضؔ
بن چکا میں کیوں بناتا ہے ارے مانی مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |