جائے آسودگی کہاں ہے آج
Appearance
جائے آسودگی کہاں ہے آج
جو زمیں کل تھی آسماں ہے آج
تم وہاں تھے تو دل وہاں تھا کل
تم یہاں ہو تو دل یہاں ہے آج
عشق کو ابتدا میں ہم سمجھے
فتنہ آخر الزماں ہے آج
کل ادا دل کا حال ہو کہ نہ ہو
سن لو گویا مری زباں ہے آج
آرزو وصل کی شہید ہوئی
ماتم مرگ نوجواں ہے آج
اس ہدف پر لگائیں گے وہ تیر
دل نشیں داغؔ کا نشاں ہے آج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |