جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
راہ کے جانے والوں نے بھی منہ اس کا پھر پھر کے دیکھا
قیس ملے تو اس سے پوچھوں کیا ترے جی میں آئی دوانے
شہر کو تو نے کس لیے چھوڑا کیوں کے خوش آیا تجھ کو صحرا
صبح سے لے کر شام تلک یاں یہ وہ گلی ہے جس میں پھریں ہیں
چاک گریباں موے پریشاں ہم سے ہزاروں عاشق رسوا
اس نے مزا کیا پایا ہوگا دو چلو مے پینے کا یاں
جس میکش کے ہاتھ نہ آیا غبغب ساغر ساعد مینا
سوختگی نے غم کی اثر جو دل میں کیا ہے ہونے لگا ہے
تھوڑا تھوڑا رنگ دھوئیں کے سبزہ ہماری خاک سے پیدا
اک ٹھوکر میں مردے ہزاروں اٹھ بیٹھیں ہیں گور سے ووہیں
لیتا ہے وہ وقت خرامش پانو سے اپنے کار مسیحا
جاتے ہیں نا کسی کے گھر ہم اور نہ کوئی کچھ دیتا ہے ہم کو
قطع کیے ہیں ہم نے دونوں پائے طلب اور دست تمنا
آنکھ لڑانا سامنے آنا منہ دکھلانا اور چھپ جانا
یہ بھی ادا ہے کوئی ظالم مان خدا کو مت دے ایذا
مصحفیؔ اس دلچسپ زمیں میں طبع کرے گر تیری رسائی
خامہ ترا کچھ کند نہیں ہے ایک غزل تو اور بھی لکھ جا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |