جاتے ہی ہو گر خواہ نخواہ
Appearance
جاتے ہی ہو گر خواہ نخواہ
فبہا بہتر بسم اللہ
یک شب دیکھی جن نے وہ زلف
لاکھوں دیکھے روز سیاہ
اتنی تو مت ہو جلد نسیم
ہم بھی چمن تک ہیں ہمراہ
دشمن رہویں بادہ بغیر
تا ہے خرقہ اور کلاہ
کوندے ہے دل پر برق سی آج
پیش نظر ہے کس کی نگاہ
وعدہ کر کے رات کا تم
خوب ہی آئے واہ جی واہ
قائمؔ سے کوئی ہو ہے خفا
بندہ، خادم، دولت خواہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |