Jump to content

جاں اپنی وقف زحمت ہجراں کئے ہوئے

From Wikisource
جاں اپنی وقف زحمت ہجراں کئے ہوئے (1933)
by ناصری لکھنوی
323901جاں اپنی وقف زحمت ہجراں کئے ہوئے1933ناصری لکھنوی

جاں اپنی وقف زحمت ہجراں کئے ہوئے
عاشق ہر اک بلا کو ہیں مہماں کئے ہوئے

سب منتشر ہیں میرے جنازے کو دیکھ کر
تم ساتھ ہو جو حال پریشاں کئے ہوئے

اب تو نفس کی آمد و شد بھی ہوئی ہے بند
ایسی جگہ ہے سینے میں پیکاں کئے ہوئے

کس واسطے یہ محویت آئینہ دیکھ کر
کیوں آپ اک جہاں کو ہیں حیراں کئے ہوئے

ہنگام احتزار ہے اے دم ذرا ٹھہر
اس وقت ہوں تصور جاناں کئے ہوئے

ان مشکلوں پہ سب کی تن آسانیاں فدا
جن کو تری نگاہ ہو آساں کئے ہوئے

مجمع کا خوف روز قیامت ہے ناصریؔ
بیکار ہو وصال کا ارماں کئے ہوئے


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.