جاں فشانی کا واں حساب عبث
Appearance
جاں فشانی کا واں حساب عبث
جو کہو اس کا ہے جواب عبث
ماہتاب اور کتاں کا عالم ہے
عارض دوست پر نقاب عبث
قفل در کی کلید نا پیدا
اب تمناے فتح باب عبث
زلف پر خم ہوا سے کیوں نہ ہلے
آپ کھاتے ہیں پیچ و تاب عبث
خط اسے بھیجنا ضرور مگر
دوست سے خواہش جواب عبث
میرے اشعار سب بیاضی ہیں
ہم نشیں فکر انتخاب عبث
ہے ہماری نظر میں حرمت مے
پیچش اہل احتساب عبث
یاں نہیں کفر و دین خوف و رجا
لطف بے فائدہ عتاب عبث
نہ ثواب اس میں ہے نہ اس میں اثر
صبر بے ہودہ اضطراب عبث
وعدہ اس نے کیا تو کیا ناظمؔ
عبث اے خانماں خراب عبث
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |