Jump to content

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر

From Wikisource
جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر
by میر مستحسن خلیق
301954جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیرمیر مستحسن خلیق

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر
اور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر
ہاتھوں پہ تڑپنے لگا بچہ بھی جو کھا تیر
شہہ ؑنے کہا اس پیاسے کو تھا مارنا کیا تیر
کب ہم نے کہا تھا کہ زبردستی سے لیں گے
اتنا ہی کہا ہوتا کہ ہم پانی نہ دیں گے

یہ جانتے تو خیمے سے لاتے نہ اسے ہم
تم نے ہمیں محجوب کیا بانو سے اس دم
یہ کہتے تھے ملعونوں سے بادیدہ پرنم
جو ہاتھوں یہ معصوم تڑپ کر ہوا بے دم
فرمایا اسے پہلوئے اکبر میں لٹا کر
تم ڈریو نہ اب ہم بھی یہیں سوتے ہیں آکر

بن ماں تم اکیلے کبھی سوئے نہیں اصغر
جنگل میں اکیلا تمہیں چھوڑوں گا میں کیوں کر
پھر قبلے کی جانب یہ کہا ہاتھ اٹھا کر
سب فانی ہیں تو باقی ہے اے خالق اکبر
کیا کیا ہوئے مجھ پر ہیں ستم اہل جفا سے
پر پاؤں نہیں میرا ڈگا راہ رضا سے

کام آئے تری راہ میں انصار بھی سارے
اور بیٹے جو زینب کے تھے بیٹوں سے بھی پیارے
وہ دونوں مری آنکھوں کے آگے گئے مارے
سرپر مرے سر بیٹوں نے مسلم کے بھی مارے
گر کوئی میرا یار و مددگار نہیں ہے
جز تیری مدد کچھ مجھے درکار نہیں ہے

جب میرے عزیزوں پہ چلی ظلم کی تلوار
بندہ یہی کہتا رہا جو مرضی غفار
قاسم سے بھی جب پیارے بھتیجے کو لیا مار
اور نہر پہ مارے گئے عباس علمدار
بھائی کے لیے پہلے تو روتا تھا قلق میں
پھر سمجھا کہ بہتر یہی ہوگا مرے حق میں

نیزہ علی اکبر کی جو چھاتی میں لگا تھا
روتا ہوا میں لاش یہ اس کی تو گیا تھا
ہمشکل محمدؐ کا وہ فرزند مرا تھا
تیری ہی عنایت تھی مرا سچ ہے کہ کیا تھا
تھی مجھکو جو منظور خوشی ابن علیؑ کی
اٹھارہ برس اور زیارت کی نبیؐ کی

اصغر بھی مرا ہوگیا تیروں کا نشانہ
جنت کی طرف کردیا اس کو بھی روانہ
صد شکر کسی کا نہیں اب داغ اٹھانا
اپنا ہی گلا باقی ہے اب مجھکو کٹانا
قاتل جو رواں خنجر بران کرے گا
وہ بھی مری مشکل تو ہی آسان کرے گا

کیا کرتا اگر صاحب اولاد نہ ہوتا
ہیں لاولد اکثر ترے بندے مرے مولا
مجھ پر تو عنایت ہی ترا فضل و کرم تھا
بیٹے بھی دیے رتبہ امامت کا بھی بخشا
صابر بھی ہوئے اور انہیں جانباز بھی دیکھا
رفعت سے شہادت کی سرافرار بھی دیکھا

ہر مو کی جگہ تن پہ اگر میرے زباں ہو
کب بندہ نوازی کا تری مجھ سے بیاں ہو
راحت ہے اگر حلق پہ خنجر بھی رواں ہو
تیروں کے مزے سے کبھی خاطر نہ نشاں ہو
عرفاں کے مزے کو ہے مرا دل ہی سمجھتا
لذت کو تڑپنے کی ہے بسمل ہی سمجھتا

کی بھوک میں اور پیاس میں خاطر مری کیا کیا
فاقے میں طبق خلد سے نعمت کا ہے بھیجا
چھٹپن میں جو روزہ رکھا ماہ رمضان کا
تجھکو یہ گوارا ہوا پیاسا مرا رہنا
رحم آیا تجھے دیکھ صغیری مرے سن کی
خورشید چھپا رات وہیں ہوگئی دن کی

اور آج کئی دن کا جوہوں بھوکا پیاسا
کیا جانتے کیا مصلحت اس میں ہے سمجھتا
بندہ ہوں ترے امر میں ہے دخل مجھے کیا
تشویش بھی بے جا ہے تردد بھی ہے بے جا
خوشنودی مجھے تیری ہی مطلوب ہے یارب
جو کچھ تیری مرضی ہے وہی خوب ہے یارب

اعدا سے پھر اس طرح سے کہنے لگے سرور
کیا مجھکو سمجھتے نہیں تم سبط پیمبرؑ
میں جھوٹ ہوں کہتا؟ نہیں زہراؑ مری مادر؟
ملعونو! نہیں میں پسر حیدرؑ صفدر
انکار ہے تم کو مری عالی نسبی کا؟
کوئی نہیں شبیرؑ رسول عربی کا؟

ملعون سبھی ایک زباں ہوکے پکارے
تم سچ ہے نواسے ہو پیمبرؑ کے ہمارے
اور فاطمہ زہرا کے ہو تم بیٹے پیارے
بابا ہیں چلیؑ اور حسنؑ بھائی تمہارے
بچ جاؤ گے بیعت میں جو حجت نہ کرو گے
اور اس میں تامل ہے جو جیتے نہ بچو گے

یہ سن کے سر اس شاہ نے پہلے تو جھکایا
پھر تو عمر و شمر ستمگر کو سنایا
میں تین سوال اس گھڑی تم پاس ہوں لایا
اک ان میں سے یہ کہتا ہوں میں زہراؑ کا جایا
ناموس پیمبرؑ کہیں لے جانے دو مجھکو
اب یاں سے کسی سمت نکل جانے دو مجھکو

مارے ہیں جو تم نے مرے خویش و پسر و یار
اس خوں کا عوض تم سے نہیں لینے کا زنہار
اس واسطے اس امر کو کرتا ہوں میں اظہار
تا خون میں اپنے نہ ہوں میں آپ گرفتار
اکبرؑ نہ ہو قاسمؑ نہ ہو عباسؑ نہ ہوئے
وہ خاک جئے جس کے کوئی پاس نہ ہوئے

فرما چکے جب شاہ تو ایک ایک یہ بولا
جانے دیں کہیں آپ کو یہ ہم سے نہ ہوگا
مظلومی سے پھر کہنے لگا وہ شہہ والا
گریہ نہ ہو تو پانی پلا دو مجھے تھوڑا
وہ کہنے لگے یہ بھی نہیں ہوئے گا ہم سے
ہاں پانی پلادیں گے دم تیغ دو دم سے

شہہ نے کہا ہونٹوں پہ زباں سوکھی پھرا کر
حاضر ہوں کرو ذبح و لے پانی پلا کر
تب بولے لعیں شمر ستمگر کو سنا کر
اک جام پلا دیویں انہیں نہر سے لاکر
وہ بولا جو پانی کی مدد ہوگی ادھر سے
پھر لڑ سکو گے ساقی کوثر کے پسر سے ؟

شہہ نے کہا گر پانی پلانا بھی ہے دشوار
تو اس گھڑی حملہ نہ کرو مجھ پہ سب اک بار
ایک ایک لڑو مجھ سے تم اے قوم ستمگار
وہ بولے کہ تم ہو خلف حیدرؑ کرار
کثرت پہ ہے دم اس پہ کسی کے نہیں دم میں
ایک ایک لڑیں تم سے یہ طاقت نہیں ہم میں

فرزند ہو تم اس کے جو تھا قاتل عنتر
والد نے تمہارے ہے اکھاڑا در خیبر
پائی ہی نہیں فتح کسی فوج نے اس پر
فرزند سے ایسے کے کوئی لڑ سکے کیوں کر
جرات ہے وہی تم میں وہی شوکت و شاں ہے
قبضے میں تمہارے وہی سیف دو زباں ہے

شہہ سمجھے کہ ایک ایک نہیں لڑنے کا ہم سے
کیا غم ہے کہ ہم سب سے اکیلے ہی لڑیں گے
پھر سوئے فلک ہاتھ اٹھا کر لگے کہنے
میں کہہ چکا اعدا سے ترے حکم کے نکتے
اے خالق اکبر کوئی منت نہیں باقی
شاہد مرا تو رہیوکہ حجت نہیں باقی

یہ کہہ کے پڑھا فاتحہ اور تیغ علم کی
آنکھوں میں ستمگاروں کی اک بجلی سی چمکی
بھاگی ہوئی سب جمع ہوئی فوج ستم کی
اس وقت کی کیا شان کہوں شاہ امم کی
خیبر میں جو کچھ حیدر کرار کی سج تھی
اس روز وہی زہرا کے دلدار کی سج تھی

عمامہ محبوب خدا سر پہ بندھا تھا
پیشانی روشن نہ تھی مہ جلوہ نما تھا
ابرو کو عجب خم ید قدرت کے دیا تھا
آنکھوں پہ دل فاطمہؑ سوجی سے فدا تھا
افروختہ تھا صورت گل روئے مبارک
سنبل سے پڑے دوش پہ گیسوئے مبارک

گل برگ سے لب سوکھے ہوئے پیاس کے مارے
کوثر کے قریب اور لب دریا سے کنارے
ہتھیار دلیرانہ لگائے ہوئے سارے
پر دل کو یہ دھڑکا کہ سکینہ نہ پکارے
پیاسی تھی وہ معصومہ جو چوبیس پہر سے
خیمے کی طرف تکتے تھے حسرت کی نظر سے

جب فوج نے نرغہ کیا اس شاہ پہ اک بار
تب ان میں دھنسا وہ خلف حیدر کردار
دریا بہا اک خون کا کی ایسی ہی تلوار
گھبرا کے پکارا عمر سعد ستمگار
یوں مت لڑو تلوار نہیں کھانے کا شبیر
تیروں کے سوا مار نہیں کھانے کا شبیر

یہ سن کے کمانداروں ہی پر جا پڑے شبیر
اس شاہ پہ پہلے ہی چلے تھے کئی سو تیر
بجلی سی چمکنے جو لگی حیدری شمشیر
آگے سے کہیں بھاگنے پائے نہ وہ بے پیر
کاہے کو کبھی ایسے بہادر سے لڑے تھے
میداں میں کماندار تہی دست پڑے تھے

ترکش کہیں بکھرے تھے کہیں تیر زمیں پر
اور ساتھ کمانوں کے گرے ہاتھ بھی کٹ کر
افتادہ کہیں بازو کہیں پاؤں کہیں سر
کچھ پھینک کمانوں کے تئیں بھاگے بد اختر
کچھ ایسے مسلح تھے کہ لوہوں پہ چھپے تھے
پر خوف سے سہمے ہوئے گوشوں میں چھپے تھے

تھے تیروں کے تو زخم تن شاہ پہ اکثر
تلواریں بھی اور برچھیاں بھی پڑتی تھیں تن پر
زخموں کے سبب خون میں گھوڑا بھی ہوا تر
کہنے لگے اعدا سے مخاطب ہو یہ سرور
ہر کس بلب مالب ساغر برساند
ساغر بلبش ساقی کوثر برساند

اعدا نے کہا پانی کا زنہار نہ لو نام
ہاتھ آوے گا فردوس میں کوثر کا تمہیں جام
گوجان چلی جاتی ہے پر پیاس کو لو تھام
اس بات کو بس سنتے ہی پھر تول کے صمصام
ایسے لڑے جو فوج کئی بار ہٹائی
پانی جو ملا ہوتا تو تھی فتح لڑائی

پیاسے نے جو حملے کئے لشکر پہ کئی بار
تھی دھوپ کڑی سوکھ گئے لعل گہربار
اور مارے پسینے کے لگا ہانپنے رہوار
نزدیک تب آکر عمر سعد نے اک بار
ترغیب جو کی لشکر بے پیر کو آکر
پھر گھیر لیا فوج نے شبیر کو آکر

کہتا تھا سواروں سے پس پشت یہ ہر دم
پھر تیر جوانو چلیں شبیر پہ پیہم
بے حال ہے نہ پیاس ہے طاقت ہے بہت کم
لڑسکنے کا نہ تم سے نہیں کیجو نہ کچھ غم
گھوڑوں کو بڑھائے رہو پیچھے کو نہ سر کو
غش آتا ہے کوئی آن میں زہرا کے پسر کو

یہ سنتے ہی سب تیر لگے مارنے اک بار
اور اس تن تنہا پہ ہوئی تیروں کی بوچھار
تن چھن گیا ہر زخم سے لوہو کی چھٹی دھار
سنبھلا نہ گیا گھوڑے پہ اس زخمی سے زنہار
گہرے تھے زبس زخم تن سرور دیں پر
غش آگیا مظلوم کو گرتے ہی زمیں پر

زخمی نے بہت آپ کو اٹھ اٹھ کے سنبھالا
پر ضعف جو تھا لیٹ گیا وہ شہہ والا
غش میں بھی کئی بار لہو منہ سے جو ڈالا
پھر ہل نہ سکا فاطمہ کی گود کا پالا
دکھلا کے عمر کہنے لگا شمر لعیں کو
اب تو حرکت بھی نہیں جسم شہہ دیں کو

تو کاٹے اگر تن سے سر سید مظلوم
اخبار میں ہو فتح تیرے نام پر مرقوم
رتبہ جو ترا ہوگا وہ تجھکو نہیں معلوم
حاکم کے جو سر کردے ہیں ہوں گے تیرے محکوم
تو فرق بڑا پاوے گا آگے میں اور اب میں
عزت تری ہوئے گی شجاعان عرب میں

یہ سن کے وہ آگے بڑھا کھینچے ہوئے خنجر
اور شہہ کی چڑھا چھاتی پہ گھوڑے سے اتر کر
مظلوم کو جب ذبح لگا کرنے ستمگر
کس بے کسی سے دیکھتا تھا ہائے وہ سرور
قاتل تھا چڑھا سینۂ صد چاک کے اوپر
خنجر سے ٹپکتا تھا لہو خاک کے اوپر

جس وقت جدا ہوگیا تن سے سر شبیر
تب گیسو پکڑ شاہ کے وہ ظالم بے پیر
لٹکائے ہوئے سر کو اٹھا کر کے یہ تقریر
خنجر سے ہوا ذبح عجب صاحب شمشیر
دلبند نبی ابن ید اللہ کو مارا
واللہ دو عالم کے شہنشاہ کو مارا

یہ کہہ کے چڑھایا سر شبیر سناں پر
وہ چاند سامنہ شاہ کا تھا خون میں سب تر
گالوں یہ لٹکتے ہوئے گیسوئے معنبر
سجدے کا نشاں ماتھے پہ تھا غیرت اختر
نیزے پہ سرافراز تھا خیل شہدا میں
آنکھیں تھیں مندی ہلتے تھے لب یاد خدا میں

پھر رن سے چلے خیمہ شبیر پہ اعدا
اور گھیر لیا بیبیوں کو باندھ کے حلقہ
جب بھاگنے کو ان کے نہ رکھا کوئی رستہ
تب آگ قناتوں کو لگا شمر یہ بولا
اب ڈر نہ کوئی لوٹ نہیں منع کسی کو
اب شوق سے سب لوٹ لو ناموس نبی کو

ناگاہ لگی آگ قناتوں میں بھڑکنے
اور جل کے سراچوں کے لگے بانس کڑکنے
بیوؤں کے کلیجے لگے سینوں میں دھڑکنے
گرمی سے لگے گودیوں میں بچے پھڑکنے
ناموس نبی پر عجب آفت کی گھڑی تھی
پر بی بی کا پردہ کیے ہر لونڈی کھڑی تھی

سجاد یہ کہتا تھا کہ بابا گیا مارا
بس سنتے ہی یہ بانو نے زیور کو اتارا
اسباب ہر اک رانڈ کا لٹنے لگا سارا
جا بیٹھے زرومال سے سب کر کے کنارا
ہاتھوں کے تلے چہرے تھے ناموس نبی کے
چادر بھی رہی نام کو سر پرہ نہ کسی کے

جب لوٹ چکے آل محمد کو جفا کار
اور آگ سے بھی جل چکے سب خیمۂ اطہار
پھر اونٹ سواری کے لیے لائے وہ اشرار
سر ننگے ان اونٹوں پہ چڑھی عترت ناچار
اب راہ کا احوال خلیقؔ آگے کہے کیا
کیا ظلم ہوئے رنج اسیروں نے سہے کیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.