جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
اے ستم گر تیرے دل میں اپنا گھر پیدا کروں
یاں تو یہ عادت ہے کس کس کا کرے گا تو علاج
روز بیماری سے میں دو چار اگر پیدا کروں
یہ تغافل وصل کی شب پوچھتے ہیں میرا حال
اب دعائیں مانگ کر درد جگر پیدا کروں
آنکھ اٹھا کر جس طرف دیکھوں وہی آئے نظر
آنکھ وہ پیدا کروں اور وہ نظر پیدا کروں
فکر سے ایذاؤں کی الٹی سنا جائے ہیں غیر
ایسا دل پیدا کروں اور وہ جگر پیدا کروں
جو تمہیں منظور ہے وہ کہہ نہ دو کیوں چپ رہو
پھر خطا میری کوئی حجت اگر پیدا کروں
تیری فرقت میں گوارا کر سکوں گا کس طرح
کس کا دل لاؤں کہاں سے یہ جگر پیدا کروں
ہائے دل رنجش کا صدمہ ایک دم اٹھتا نہیں
خود منائیں وہ میں اتنی بات گر پیدا کروں
کچھ رکا دیکھا جو مجھ کو تو سنا کر یہ کہا
یہ تو اچھی ٹھہری اب لوگوں کا ڈر پیدا کروں
میں ہی ہوں مجھ سا اگر ڈھونڈو جہاں میں مبتلا
تو ہی ہو تجھ سا حسیں دنیا میں گر پیدا کروں
اچھا اچھا در کو کر لو بند مجھ کو دیکھ کر
سر کو ٹکراؤں ابھی دیوار و در پیدا کروں
سب کچھ آتا ہے مگر یاں عقل حیراں ہے مری
تیرے دل میں رہ کیوں کر فتنہ گر پیدا کروں
اب تری جھوٹی لگاوٹ میں نہ آؤں گا کبھی
مفت ایذا پاؤں ناحق درد سر پیدا کروں
کہتے ہیں کیا تجھ پہ گزری تھی مرے جانے کے بعد
کیا بتاؤں کیسے وہ وقت سحر پیدا کروں
کیوں نظامؔ اس وقت تو تم مان جاؤ گے مجھے
دوستی اس دشمن جاں سے اگر پیدا کروں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |