جب تک کہ تو جلوہ گر نہ ہووے
Appearance
جب تک کہ تو جلوہ گر نہ ہووے
میری شب غم سحر نہ ہووے
افسوس کہ جس سے ہم گزر جائیں
اور تیرا ادھر گزر نہ ہووے
عاشق ترا اپنی جان کھو دے
پر حیف تجھے خبر نہ ہووے
مر جائیں ہم آہ کرتے کرتے
اور دل میں ترے اثر نہ ہووے
صد حیف ضمیرؔ ہم تو روئیں
اس کی کبھی چشم تر نہ ہووے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |