جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی
Appearance
جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی
ہوں پیار کی باتیں بھی تو لذت نہیں ملتی
آرام گھڑی بھر کسی کروٹ نہیں ملتا
راحت کسی پہلو شب فرقت نہیں ملتی
جب تک وہ کھنچے بیٹھے ہیں دل ان سے رکا ہے
جب تک نہیں ملتے وہ طبیعت نہیں ملتی
جیتے ہیں تو ہوتی ہے ان آنکھوں سے ندامت
مرتے ہیں تو اس لب سے اجازت نہیں ملتی
اس زہد پر نازاں نہ ہو زاہد سے یہ کہہ دو
تسبیح پھرانے ہی سے جنت نہیں ملتی
کیا ڈھونڈھتے ہیں گور غریباں میں وہ آ کر
کس کشتۂ رفتار کی تربت نہیں ملتی
کس طرح مرے گھر وہ حفیظؔ آئیں کہ ان کو
غیروں کی مدارات سے فرصت نہیں ملتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |