Jump to content

جب تیغ کو پکڑ وہ خونخوار گھر سے نکلا

From Wikisource
جب تیغ کو پکڑ وہ خونخوار گھر سے نکلا
by نواب سلیمان شکوہ
323719جب تیغ کو پکڑ وہ خونخوار گھر سے نکلانواب سلیمان شکوہ

جب تیغ کو پکڑ وہ خونخوار گھر سے نکلا
تب میں بھی جان سے ہو بیزار گھر سے نکلا

ہر مو کمر کے سو سو بل پڑ گئے کمر میں
پٹکا جو باندھ کر وہ بل دار گھر سے نکلا

کشتے کو تیرے در سے افسوس لے گئے کل
اور تو نہ اک قدم بھی اے یار گھر سے نکلا

چھوڑا نہ جب گریباں دست جنوں نے میرا
تب چیر کر میں اس کو ناچار گھر سے نکلا

روزن سے اس نے اوپر مجھ کو کھڑے جو دیکھا
کھنکھار کر وہیں وہ عیار گھر سے نکلا

اس بت کے دیکھنے کو کر ترک دین و ایماں
میں ڈال کر گلے میں زنار گھر سے نکلا

چہروں پہ عاشقوں کے زردی سی پھر گئی تب
جب باندھ وہ بسنتی دستار گھر سے نکلا

لوگوں کے خوف سے پھر کل شب کو میری خاطر
لاچار پھاند کر وہ دیوار گھر سے نکلا

وہ شاہ حسن میرے اس ملک دل پہ یارو
جس دم کہ دوڑنے کو یلغار گھر سے نکلا

کھول آہ کا علم اور لے اشک کے قشوں کو
یوں میں بھی ہو کے اس دم تیار گھر سے نکلا

کچھ تو اثر کیا ہے دل کی ترے کشش نے
پڑھتا جو وہ سلیمانؔ اشعار گھر سے نکلا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.