جب تیغ کو پکڑ وہ خونخوار گھر سے نکلا
جب تیغ کو پکڑ وہ خونخوار گھر سے نکلا
تب میں بھی جان سے ہو بیزار گھر سے نکلا
ہر مو کمر کے سو سو بل پڑ گئے کمر میں
پٹکا جو باندھ کر وہ بل دار گھر سے نکلا
کشتے کو تیرے در سے افسوس لے گئے کل
اور تو نہ اک قدم بھی اے یار گھر سے نکلا
چھوڑا نہ جب گریباں دست جنوں نے میرا
تب چیر کر میں اس کو ناچار گھر سے نکلا
روزن سے اس نے اوپر مجھ کو کھڑے جو دیکھا
کھنکھار کر وہیں وہ عیار گھر سے نکلا
اس بت کے دیکھنے کو کر ترک دین و ایماں
میں ڈال کر گلے میں زنار گھر سے نکلا
چہروں پہ عاشقوں کے زردی سی پھر گئی تب
جب باندھ وہ بسنتی دستار گھر سے نکلا
لوگوں کے خوف سے پھر کل شب کو میری خاطر
لاچار پھاند کر وہ دیوار گھر سے نکلا
وہ شاہ حسن میرے اس ملک دل پہ یارو
جس دم کہ دوڑنے کو یلغار گھر سے نکلا
کھول آہ کا علم اور لے اشک کے قشوں کو
یوں میں بھی ہو کے اس دم تیار گھر سے نکلا
کچھ تو اثر کیا ہے دل کی ترے کشش نے
پڑھتا جو وہ سلیمانؔ اشعار گھر سے نکلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |