جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
Appearance
جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا
بسترہ تھا چمن میں جوں بلبل
نالہ سرمایۂ توکل تھا
یک نگہ کو وفا نہ کی گویا
موسم گل صفیر بلبل تھا
ان نے پہچان کر ہمیں مارا
منہ نہ کرنا ادھر تجاہل تھا
شہر میں جو نظر پڑا اس کا
کشتۂ ناز یا تغافل تھا
اب تو دل کو نہ تاب ہے نہ قرار
یاد ایام جب تحمل تھا
جا پھنسا دام زلف میں آخر
دل نہایت ہی بے تامل تھا
یوں گئی قد کے خم ہوئے جیسے
عمر اک رہرو سر پل تھا
خوب دریافت جو کیا ہم نے
وقت خوش میرؔ نکہت گل تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |