Jump to content

جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب

From Wikisource
جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب
by مرزا سلامت علی دبیر
294957جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شبمرزا سلامت علی دبیر

جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب
خورشید کے نشاں نے مٹایا نشان شب
تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب
تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان شب
آئی لو صبح زیور جنگی سنوار کے
شب نے زرہ ستاروں کی رکھ دی اتار کے

شمشیر مشرقی جو چڑھی چرخ پر شتاب
پھر تیغ مغربی نے دکھائی نہ آب و تاب
تھا بس کہ گرم خنجر بیضائے آفتاب
باقی رہا نہ چشمۂ نیلوفری میں آب
محتاج ماہتاب ہوا آب و تاب کا
باغ جہاں میں پھول کھلا آفتاب کا

تھی جوش خوں کے عارضہ میں مبتلا شفق
فصاد صبح آیا لیے نشتر و طبق
کھولی شفق کی فصد تو رنگ افق تھا فق
گل رنگ تھا صحیفۂ گردوں ورق ورق
خون شفق میں سرخ قضا نے قلم کیا
اور خط و خال روز شہادت رقم کیا

صرف نگاہ داشت ہوا شاہ خوش نہاد
دفتر کشا نے کھول دیا دفتر مراد
چہرہ پہ صبح کے جو کیا آب زر سے صاد
کافور ہوگئی شب تاریک کی مداد
رتبہ سے سرفراز کیا ماہتاب کو
عہدہ ہراولی کا دیا آفتاب کو

طغرا نویس روز نے پھر جس قدر لکھا
وہ حرف حرف موجب حکم قدر لکھا
خورشید کو ہراول فوج سحر لکھا
حرؔ کو ہراول شہ والا گہر لکھا
چہرہ جو دوہر والوں کا ایک جا ہوا
پر حرؔ کا نام مہر سے روشن سوا ہوا

شب نے نکالا پنبۂ اختر جو کان سے
غل نوبت سحر کا سنا آسمان سے
اور شور کوس رحلت سرور جہان سے
فریاد وا حسینؑ حرم کی زبان سے
نعرہ سنا اذاں کا خیام امام سے
اور اقتل الحسینؑ کا غل فوج شام سے

مصروف دار و گیر میں تھا خسرو سحر
دریا کے بندوبست میں تھی فوج بد گہر
ظاہر میں آب نہر پہ قبضہ تھا سربسر
باطن میں سب کی ملک میں تھی آتش سقر
آواز آرہی تھی مزار رسولؐ سے
مہر بتولؑ چھن گیا ابن بتول سے

چاروں طرف تھا بس کہ ہجوم سپاہ شام
گویا سیاہ پوش تھا آب رواں تمام
ماتم پہ تھا کہ مالک کوثر ہے تشنہ کام
غم سے الٹ دیئے تھے حبابوں نے اپنے جام
دریا جو دور پیاس میں تھا شہ کی فوج سے
منہ پر طمانچے مارتا تھا دست موج سے

خیمہ میں ابن سعد کے مجمع تھا بے شمار
بیٹھا تھا زرد رو سر کرسئ زر نگار
جاسوس پہلوؤں میں کھڑے تھے امیدوار
اور حکم صف کشی کا نقیبوں کو انتظار
جو قصد تھا وہ دین کے برباد ہونے کا
جو ذکر تھا وہ فاطمہؑ زہرا کے رونے کا

کہنے لگا رفیقوں سے خوش ہو کے وہ شریر
اک خواب میں نے دیکھا ہے آج اے جوان و پیر
کہنے لگے یہ دست ادب باندھ کر شریر
ارشاد ہو وہ دیکھا ہے کیا خواب اے امیر
بولا وہ فکر جنگ سے تھا اضطراب میں
اپنے نبیؐ کو ذبح کیا میں نے خواب میں

سب نے کہا کہ فتح مبارک ہو اے عمر
کاٹا سر حسینؑ تو کاٹا نبیؐ کا سر
چلایا شمر خواب ہے اپنا عجیب تر
گویا سوار ہوں شہ بیکس کے سینہ پر
مطلق کیا نہ پاس رسولؐ انام کا
خنجر سے میں نے قطع کیا سر امامؑ کا

یہ سن کے حرملہ نے کہا خواب سن مرا
گویا کیے ہیں تو نے دو خلعت مجھے عطا
ہیں دو نشانے تیر کے میرے جدا جدا
اک بازوئے حسینؑ اور اک طفل کا گلا
بیٹے کا اور پدر کا لہو مل کے بہ گیا
وہ مرگیا تڑپ کے یہ چپ ہو کے رہ گیا

بولا عدو ہے کہنے کی کیا اس میں احتیاج
سب کچھ تمہارے واسطے ہے بعد فتح آج
جس زخم کا رفو ہو نہ جس درد کا علاج
آج ابن فاطمہؑ کے لیے اس کا ہو رواج
سادات کی ردائیں بھی لوشہ کا سر بھی لو
خلعت بھی لو خطاب بھی لو مال و زر بھی لو

جاسوسوں کو قریب بلا کر کہی یہ بات
لو تم بھی اب کہو خبر شاہ نیک ذات
کیوں کر بغیر آب کٹی یہ تمام رات
کیا گزری شب کو پیاسوں پہ اب کیا ہے واردات
نامہ تو کوئی اہل وطن کو لکھا نہیں
بہر کمک کسی کو طلب تو کیا نہیں

کس کس کو شہ نے اسلحہ بخشا ہے کچھ سنا
شمشیر حیدری ہوئی کس شیر کو عطا
پچھلے کو خیمہ گاہ میں کیوں حشر تھا بپا
ہم کو تو دیتے ہوئیں گے شپیرؔ بد دعا
مشتاقئ اجل ہے کہ شوق جہاد ہے
جاسوس نے کہا کہ فقط حق کی یاد ہے

ہر سجدے میں شفاعت امت کی تھی دعا
کیسی مدد حسینؑ کو ہے احتیاج کیا
اکبرؑ سے شاہ کہتے تھے بیٹا وطن کو جا
تنہائی کی اجل میں ہے پیارے بڑا مزا
کب اسلحہ کسی کو دیا ہے حسینؑ نے
تقسیم سب کو صبر کیا ہے حسینؑ نے

پچھلے کے پہر رونے کا مضموں ہے دردناک
شپیرؔ نے سکینہؔ کا کرتا کیا تھا چاک
منہ پر ملی پھر اس کے یتیموں کی طرح خاک
کہتے تھے سب نہ صلح ہوئی اے امام پاک
فرماتے تھے حسینؑ کہ کل صلح ہوئے گی
لیکن وہ صلح ہوگی کہ سب خلق روئے گی

حضرت نے بے کسی سے کہا جب کہ یہ سخن
مل کر گلے سے بھائی کے رونے لگی بہن
پہنائے اپنے بیٹوں کو چھوٹے سے دو کفن
زینبؔ ہوئی جوانئ اکبر پہ نوحہ زن
غش پر غش آیا بادشۂ بے نظیر کو
اکبرؑ نے بخشوایا جو مادر سے شیر کو

پیاسے تو ہیں حسینؑ پر اس ضبط پر فدا
اک چشمہ خیمہ گاہ میں اس وقت تک رہا
پینے دیا کسی کو نہ خود شاہ نے پیا
دھویا کفن کو غسل کیا اور وضو کیا
نہر بہشت بہر طہارت خود آئی تھی
گویا رسول زادے کے گھرمیں خدائی تھی

لیتے ہوئے خبر جو پھرے ہم ہر ایک جا
پر سوئے پشت خیمہ نہ اپنا قدم بڑھا
آتی تھی ہائے ہائے پسر کی وہاں ندا
شپیرؔ کہتے تھے یہ مری ماں کی ہے صدا
خیمہ کے گرد نعرۂ شیر آشکار تھا
آئی صدا وہ شیر خدا بے قرار تھا

ہے آج تو ہر ایک طرح اپنی ہی ظفر
ہاں اب سلاح باندھیں جوانان ذی ہنر
دوڑے نقیب باندھ کے دامن ادھر ادھر
دو لاکھ مستعد ہوئے قتل حسینؑ پر
انصاف کہہ رہا تھا کہ یہ کیا خیال ہے
اے ظالمو بتولؑ کا یہ ایک لال ہے

جب مورچے بندھے تو علم یک قلم کھلے
تیر جفا کمانوں کی میزان میں تلے
قرنا کا زور و شور وہ نوبت کے غلغلے
جن کی صدا سے خون ہو خشک اور تن گھلے
ترکش کے تیر دیکھ کے آتا تھا دھیان میں
غل کے سبب سے انگلیاں دیتے تھے کان میں

جاروب کش نے آئینہ رن کو بنادیا
سقوں نے حرب گاہ میں دریا بہا دیا
پیغام صور شور دہل نے سنا دیا
بانگ نقیب نے دل اعدا بڑھا دیا
غل تھا کہ کوئی دم میں شہ دوسرا نہیں
زینبؑ کا اب جہاں میں کوئی آسرا نہیں

اب آن کر حسینؑ کا دیکھو جلال و جاہ
بن میں شگفتہ ہے چمن قدرت الہٰ
میدان میں سپاہ ہے خیمہ میں بادشاہ
انجم تو محو سیر ہیں برج شرف میں ماہ
کیا باوفا سپاہ شہ دیں پناہ ہے
دو دن کے پیاس ان کی وفا پر گواہ ہے

تھی بس کہ آمد آمد ابن ابو تراب
تھا ہاتھ میں خضر کے عصائے پر آب و تاب
الیاسؑ آب پاش تھے با دیدۂ پر آب
فرش زری بچھائے تھے فراش ماہتاب
حالت تھی غیر بنت رسالت پناہ کی
بالوں سے جھاڑتی تھی زمیں قتل گاہ کی

قربان بارگاہ حسینؑ و نثار فوج
خیمہ فلک شکوہ تو یہ فوج عرش اوج
جنت رواق زینت آفاق حورو زوج
دریا زرہ نہنگ سپر برق تیغ موج
کیا ان کے ااگے صولت سہراب و زال ہے
زال ان کے رعب و دبدبہ سے پیر زال ہے

رخ ایک کا مفسر والشمس والضحٰے
خال ایک کا مترجم و النجم اذا ہوا
چہرہ کسی کا زلف میں کالبدر فی الدجا
فرق بلند ایک کا تفسیر والسما
خود اوج سر ہے خود کا سر سے عروج ہے
ہر خود سر مشرح ذات البروج ہے

اکبر کھڑے ہیں ساغر عرفاں پیے ہوئے
دوچار ہمسنوں کو جلو میں لیے ہوئے
دست قضا میں نقد جوانی دیے ہوئے
دل میں خدا سے عہد شہادت کیے ہوئے
نقشہ تھا اک نبیؐ کا اس افلاک کے تلے
اٹھارہویں برس میں چھپا خاک کے تلے

چہرہ سے تابہ ناف ہے پیغمبر زمن
محبوب عصر ثانٔی محبوب ذوالمنن
ہے ناف یا کہ عکس فگن غنچۂ دہن
بالکل خطا ہے کہیے اگر نافۂ ختن
کب نافۂ ختن میں بھلا بوئے ناف ہے
یہ ناف روح پرور عبد مناف ہے

نیلے ہیں لب جو پیاس سے تو حسن ہے نیا
غنچہ دہن کا غنچۂ نیلوفری بنا
قاسم میں خلق و حلم ہے میراث مجتبا
مظلومیت حسینؑ کی یاں سر سے تابہ پا
یہ آفتاب حسن ہے وہ ماہ حسن ہے
وہ شاہ حسن ہے یہ شہنشاہ حسن ہے

شوکت نثار شوکت عباسؑ نامور
اللہ کی ہے سیف تو شپیر کی سپر
حمزہ حشم عقیل شیم صاحب ہنر
تیار مثل جعفر طیار جنگ پر
کہتے ہیں گو علم مرا نخل مراد ہے
سقہ سکینہؑ کا ہوں یہ رتبہ زیاد ہے

لہرا رہا ہے سبز پھر ہرہ بآب و تاب
پنجے پہ اس علم کے ہے قربان آفتاب
دو فتحہ ایک لفظ علم پر ہیں انتخاب
دونو جہاں میں ہے یہ علم دار لاجواب
کیوں کر گرہ کشائی میں بے مثل یہ نہیں
شکل کلید چوب علم میں گرہ نہیں

مڑ کر نجف کو کہتا ہے وہ شیر بے نظیر
اماں حسینؑ کے لیے بخشو حقوق شیر
سوئے نجف دعا ہے کہ ہوں آپ دست گیر
آتی ہے یہ علی کی ندا اے مہ منیر
کٹوا کے سر کو ہوجیو فدیہ حسینؑ کا
عباسؑ تجھ پہ دین ہے یہ والدین کا

ہیں پاس پاس مسلم و زینب کے یادگار
اک جا یہ چار چاند ہیں یا آفتاب چار
ذیقدر و ذی مراتب و ذی جاہ و ذی وقار
جان باز و سر فروش و نمودار و نامدار
عارض وہ پھول سے کہ تصدق بہار ہے
وہ کمسنی کہ جس پہ جوانی نثار ہے

مصحف ہے ان کا روئے مبیں غیرت قمر
کچھ کچھ عیاں ہے سبزۂ خط روئے پاک پر
جس حسن سے کہ سورۂ اخلاص مختصر
سورہ تو مختصر پہ فضیلت زیادہ تر
چہروں سے آشکار حسینؑ و حسن کا رنگ
سوکھے ہوئے لبوں پہ تصدق چمن کا رنگ

دیکھی شکوہ فوج سنو شہ کا ماجرا
آخر ہوا وظیفۂ آخر جو شاہ کا
کی ہاتھ اٹھا کے بار گہہ حق میں یہ دعا
یارب رسول پاک کی امت کا ہو بھلا
سہل است گر رود سر من برسر سنین
زینبؑ اگر اسیر شودوائے بر حسینؑ

زینب نے رو کے سبط پیمبر سے یہ کہا
بھیا ہزار جان سے تم پر بہن فدا
سایہ میں آپ کے مرا سر ہوئے بے ردا
میرا گلا بندھے نہ کٹے آپ کا گلا
زنداں ہو بے ردائی ہو اور شور شین ہو
زینب کو سب قبول ہے لیکن حسینؑ ہو

بولے حسینؑ بس کہ ہوا ٹکڑے دل مرا
میں جانتا ہوں ماں کی طرح مجھ پہ ہو فدا
جب صبر دے خدا تمہیں اور حشر میں جزا
پر میری زندگی میں تو ہو تم نہ بے ردا
کیوں کر خلاف مرضئ رب قدیر ہو
شپیر ذبح ہوئے تو زینبؑ اسیر ہو

باہیں گلے میں ڈال کے زینبؑ نے دی ندا
لپٹی ہوں فضہ اکبرؑ و عباسؑ کو بلا
آئے جو گھر میں اکبرؑ و عباس یہ کہا
لو ہم سے بھائی جان بھی اب ہوگئے خفا
اماں بھی مرگئیں مرے بابا بھی مر گئے
مرجاؤں گی جو یہ بھی مجھے چھوڑ کر گئے

میں تو ابھی ہوں چار بزرگوں کی سوگوار
ناسور دل میں چار ہیں سینے میں داغ چار
اب داغ پانچواں کیا قسمت نے روبہ کار
کیوں ماں کے ساتھ مر نہ گئی میں جگر فگار
جس کو کہ آسرا ہو فقط ایک بھائی کا
حال اس بہن سے پوچھیے زہراؑ اکی جائی کا

اس ذکر سے قیامت کبرا ہوئی عیاں
بھائی بہن کے اشک تھے رخسار پر رواں
سرکھولے گرد بیبیاں کرتی تھیں یہ بیاں
لٹتے ہیں پر ہلا نہیں سکتا کوئی زباں
شہ کہتے ہیں کہ آج کا دن امتحاں کا ہے
جانا وہاں ضرور ہے وعدہ جہاں کا ہے

فرما کے حکم صبر کا سب کو بصد شتاب
عصمت سرا سے پھر تو برامد ہوئے جناب
عباسؑ لائے مرکب ابن ابوتراب
چومے عناں نے ہاتھ گری پاؤں پر رکاب
یوں زیب زیں وہ سرور دنیا و دیں ہوا
قرآن پاک رحل پہ جلوہ گزیں ہوا

رخش حسینؑ قدرت حق صنع کبریا
دل دل خرام برق لجام و براق پا
خورشید زین بدر جبین و قمر ضیا
گل کو نہ اس بدن کی نزاکت کہوں میں کیا
گر بوسہ زن نسیم دم سیر باغ ہو
فورا نمود جلد سے لالہ کا داغ ہو

وہ رفرف و براق پہ کرتا تھا افتخار
یعنی سوار دوش نبیؐ ہے مرا سوار
میکائیل و جبرئیل عناں بوس بار بار
سرعت یہ تھی کہ باگ ہلی اور فلک کے پار
ہر گاہ بدر سم کی ضیا آسماں پہ تھی
برق لجام وہ کہ چمک کہکشاں پہ تھی

حاضر حضور شہ میں ہوا لشکر خدا
حضرت نے سب کو حکم صف آرائی کا دیا
روح الا میں نے بڑھ کے کیا صاف راستا
پھیلی جو شہ کے چہرۂ پر نور کی ضیا
عالم تھا حسن رخ میں عجب آب و تاب کا
چوتھے فلک پہ پھر گیا منہ آفتاب کا

فوج عدد سے جنگ کا پیغام لائے تیر
اہل ستم نے اہل وفا پر چلائے تیر
دو دن کی بھوک پیاس میں پیاسوں نے کھائے تیر
بولے حسینؑ ادھر سے نہ کوئی لگائے تیر
پوچھا سبب جو شہ نے کہا کچھ خبر بھی ہے
اک عاشق حسینؑ ہمارا ادھر بھی ہے

یاں صبر تھا عروج پہ زوروں پہ واں ستم
کی ابن سعد نحس نے تیغ زباں علم
بولا کہاں ہے حُرّ جری صاحب حشم
لایا ہے گھیر کر وہی شہ کو مع حرم
اب تیغ ہو یزید کی اور حر کا ہاتھ ہو
اور زیر تیغ حلق شہ خوش صفات ہو

حر صبح سے علاحدہ گوشہ میں تھا کھڑا
انگشت حیف لب کے تلے اور یہ تھی حیا
اللہ توبہ آہ بڑی میں نے کی خطا
سید کو گھیر کر یہاں لایا غضب کیا
نرغہ ہے ظالموں کا شہ خوش خصال پر
پانی ہے بند ساقئ کوثر کے لال پر

حر سے کہا برادر و فرزند نے یہ کیا
اے رستم زمانہ ہزاروں سے تو لڑا
ستردوتن سے تیرے لرزتے ہیں دست و پا
حر نے کہا میں خوف سے کانپوں نہ کیوں بھلا
یاں تو مقابلہ پسر مصطفی کا ہے
اور بعد اس کے سامنا اک دن خدا کا ہے

دل میں مرے ٹھنی ہوئی ہے رات سے یہ با ت
حتما یہی ہے قصد جو فضل خدا ہے سات
جاکر ملوں امام سے خود باندھ کر میں بات
شاید اسی وسیلہ سے ہوئے مری نجات
جی میں یہ ہے کہ صابر و شاکر کا ساتھ دوں
ہوں منحرف خدا سے جو کافر کا ساتھ دوں

اب اپنی تم کہو کہ تمہارا ہے قصد کیا
دونوں نے کی یہ عرض کہ جو آپ کی رضا
حاضر غلام حر بھی ہوا اور یہ کہا
یہ خانہ زاد بھی ہے فدائے شہ ہدا
عشق دلی ہے مجھ کو شہ خوش صفات سے
مجھ کو نہ چھوڑیے گا کہیں اپنے سات سے

حر نے دیا یہ حکم سمندوں کو سج کے لاؤ
جلدی کا ہے یہ وقت بسرعت قدم بڑھاؤ
کثرت سے فوج شام کی ہرگز نہ خوف کھاؤ
نام حسینؑ لے کے عنان فرس اٹھاؤ
نکلو عذاب نار سے داخل جناں میں ہو
حاظر جناب سرور کون و مکاں میں ہو

حر اور پسر برادر و عید نکو شعار
گھوڑوں پہ اپنے اپنے دلاور ہوئے سوار
آئے دلیر پیش بن سعد نابکار
فرمایا حر نے او ستم اطوار ہوشیار
اب لمحہ بھر بھی یاں مجھے رہنا حرام ہے
کیوں کفر سے جدا نہ ہوں حر میرا نام ہے

اس حال جانگزا کی نہ تھی کچھ خبر مجھے
میں کیا کہوں ہوئی ہے یہ کیوں کر سحر مجھے
تیری طرح نہیں ہوس مال و زر مجھے
بار گراں ہے دوش پہ اپنے یہ سر مجھے
دنیا کے جال میں کہیں دیں دار آتے ہیں
دیکھ اس طرح سے حق کے طلبگار جاتے ہیں

تھا شام سے یہ قصد کہیں جلد ہو سحر
ہوں داخل سپاہ شہنشاہ بحر و بر
کہنے کو یہ نہ ہو کہ یہ غالب تھا دل پہ ڈر
چھپ کر حجاب شب میں گیا حر بصد خطر
اب جس میں دم ہو بڑھ کے غضنفر کو ٹوک لے
تو حکم ساری فوج کو دے مجھ کو روک لے

بولا یہ ابن سعد کہ اے آزمودہ کار
چہرہ سے ہے نمود ترے خوف و اضطرار
باتیں بنا رہا ہے بگڑ کر بہ انتشار
ہونے کو اب ہے جنگ رسالہ سے ہوشیار
ہے خون خشک برق دم ذوالفقار سے
تو ڈر گیا حسینوں کی کارزار سے

یہ جان لے کہ نوکری پر آئے گا زوال
یہ یاد رکھ نہ چھوٹ کے ہوگا کبھی بحال
ہوں گے اسیر ظلم و ستم سےترے عیال
افسوس کچھ نہیں تجھے ناموس کا خیال
ذلت کا سامنا ہو تو افسر کی موت ہے
منہ موڑنا وغا سے دلاور کی موت ہے

کیا خوب واہ رشتۂ نوجوڑتا ہے تو
برسوں کا سلسلہ جو ہے وہ توڑتا ہے تو
بیڑے کا اپنے ساتھ عبث چھوڑتا ہے تو
حاکم سیایسے وقت میں منہ موڑتا ہے تو
کیوں کر سنوں میں آج ترے اس کلام کو
کل کی ہے بات گھیر کے لایا امام کو

کیوں ہاتھ شہ کی باگ پہ ڈالا تھا یا نہیں
جو حوصلہ تھا دل کا نکالا تھا یا نہیں
غصہ علیؑ کے شیر نے ٹالا تھا یا نہیں
تو تیغ حیدری کا نوالا تھا یا نہیں
رہتا اگر وہ طور اسی دم تھا خاتمہ
بڑھتا گیا کچھ اور اسی دم تھا خاتمہ

حر نے کہا اسی کی ندامت یہ ہے مجھے
مجھ سے یہ کیا خطا ہوئی حیرت یہ ہے مجھے
ہوں ان سے منحرف کہیں طاقت یہ ہے مجھے
صدقے ہوں شہ کے قدموں پہ حسرت یہ ہے مجھے
سرکاٹ لیں تو جرم کی میرے سزا یہ ہے
اور بخش دیں خطا تو سراسر عطا یہ ہے

بے حد ہے میرے دل پہ ہجوم غم وملال
تا عمر یہ رہے گی ندامت مجھے کمال
لشکر سمیت پیاس سے تھا غیر میرا حال
محفوظ شور و شر سے رہے مرتضا کا لال
رکھا نہ اپنے واسطے پانی پلادیا
مرتے ہووں کو ابر کرم نے جلادیا

احساں یہ ان کا دل سے بھلاؤں نہ ہوئے گا
منہ قبلۂ امم سے پھراؤں نہ ہوئے گا
دوزخ میں اپنے پاؤں سے جاؤں نہ ہوئے گا
بت کے لیے میں کعبہ کو ڈھاؤں نہ ہوئے گا
سبط نبیؐ کے دل کو دکھایا نہ جائے گا
مجھ سے تو دست ظلم اٹھایا نہ جائے گا

تیری طرح نہیں ہے مجھے حرض ملک و مال
لعنت ہے ایسے مال پہ جب ہو برا مآل
بس کر چکا اطاعت بے دین و بد خصال
تف ایسی نوکری پہ جو ایماں کا ہو زوال
بھاتا نہیں یہ عہدۂ و منصب نگاہ کو
پامال کر رہا ہوں اس اعزاز و جاہ کو

حر کے سخن کو کاٹ کے بولا وہ پرفتن
اے صف شکن یہ صف شکنوں کا نہیں چلن
بیٹا بھی ترے ساتھ ہے اے مورد محن
اس چاند کو لگاتا ہے خود ہاتھ سےگہن
ترا خیال کس طرف اے باتمیز ہے
اولاد سے سوا کوئی دنیا میں چیز ہے

حر نے کہا کہ اس کا نہیں کچھ مجھے خطر
سو جاں سے ہوں فدائے شہنشاہ بحر وبر
ہمراہ اس لیے لیے جاتا ہوں یہ پسر
صدقے کروں گا اس کو شبیہ رسولؐ پر
لے کر رضا امام سے لڑنے کو آؤں گا
میں سب سے پہلے گلشن جنت میں جاؤں گا

یہ کہہ کے حر نے باگ کو موڑا بہ عز و شاں
نکلا چمک کے فوج سے رہوار خوش عناں
ہمراہ تھے برادر و فرزند نوجواں
سایہ کی طرح عبد پس پشت تھا رواں
لے کر علیؑ کا نام اس انبوہ عام سے
وہ پیرو حسینؑ چلے فوج شام سے

نکلا سپاہ شام سے یوں حر نامور
جیسے گہن سے مہر مبیں ابر سے قمر
مدح و ثنا زبان سے اور آنکھ سے نظر
یوسف کنویں سے پردۂ شب سے رخ سحر
غل تھا کہ رود نیل سے موسیٰ نکل گئے
ظلمت کا خضر پیر کے دریا نکل گئے

پہنچا قریب فوج خدا جب وہ باوفا
حر جری نے سبط پیمبر کو دی صدا
اے شیر کبریا کے پسر تجھ پہ میں فدا
وقت مدد ہے اے جگر و جان مرتضٰی
محجوب ہے کمال بہت شرمسار ہے
مولا غلام عفو کا امیدوار ہے

حاضر ہوا جو خدمت شہ میں وہ ذی وقار
بس دوڑ کر لیے قدم شاہ نامدار
سر رکھ کے شہ کے پاؤں پہ کی عرض بار بار
امیدوار رحم و کرم ہے یہ خاکسار
میں قابل سزا ہوں سزا مجھ کو دیجئے
یہ بات قطع کیجئے سر کاٹ لیجئے

سینے سے سر لگا کے یہ بولے شہ امم
اللہ جانتا ہے کہ راضی ہیں تجھ سے ہم
کیسا گناہ کیسی خطا اے نکو شیم
تیرا تو نام فرد شہادت میں ہے رقم
یاں آکے مورد ستم و رنج و آہ ہوں
تو عذر خواہ کیا ہے میں ہی عذر خواہ ہوں

مہماں ہے تو حسینؑ کا اے حر باوفا
حیران ہوں کہ تیری ضیافت کروں میں کیا
یہ دن ہے تیسرا کہ نہ پانی ہے نے غذا
مرتے ہیں مارے پیاس کے اطفال مہ لقا
پانی ملا نہ دود ھ ملا بے زبان کو
آتے ہیں غش پہ غش چھ مہینہ کی جان کو

حر نے کہاں خطا بھی مری بخشی یا امام
شہ بولے عفو ہوگئے تیرے گنہ تمام
بھائی کو اور پسر کو دکھا کر وہ نیک نام
بولا کہ اور تو کسی قابل نہیں غلام
فدوی کا سر تو سبط پیمبرؐ کی نذر ہے
عباسؑ کی یہ نذریہ اکبرؑ کی نذر ہے

شہ سے رضا طلب ہوا پھر حر باوفا
فرمایا شاہ دیں نے کہ جلدی ابھی ہے کیا
کی حر نے عرض اے جگر و جان مرتضا
دعوت کے بدلے کیجئے جنت مجھے عطا
للہ روکیئے نہ اب اس تلخ کام کو
اکبرؑ کا صدقہ دیجئے رخصت غلام کو

لے کر رضا امام سے باصد شکوہ و شاں
پیاسا چلا جہاد کو پیاسوں کا میہماں
ڈیوڑھی سے فضہ بولی کہ حیدر نگیبہاں
اے حر دعائیں دیتی ہیں زہراؑ کی بیٹیاں
خوش خوش چڑھا دلیر سمند دلیر پر
گویا سوار شیر ہوا پشت شیر پر

اب ہے یہاں اشارۂ تائید کبریا
شکل ہراول شہ دیں کھینچ کر دکھا
قربان اس اشارہ کے اس لطف پر فدا
اب تک کسی نے حر کا سراپا نہیں لکھا
گنجینہ فیض سے ہے خدا کا بھرا ہوا
مضمون میرے حصہ کا یہ تھا بچا ہوا

لکھتا ہو حسن چہرۂ حر وفا سرشت
شیعہ تو داد دیں گے کے مجھے پنچتن بہشت
جس نے لکھا یہ وصف ہوئی خلد سرنوشت
رویا جو حر کو سبز ہوئی مغفرت کی کشت
حر کی طرح بخیر ہوا کس کا خاتمہ
سرزانوئے حسینؑ پہ بالیں پہ فاطمہؑ

مہر مبین مشرق مہروفا ہے حر
گنجینۂ محبت آل عبا ہے حر
سرتاج شیعیان علی جو بنا ہے حر
گویا کہ ابن فاطمہؑ کا نقش پا ہے حر
ہے فخر جو غلام حر نیک نام ہو
آقا حسینؑ سا ہو تو حر سا غلام ہو

مہمان کر بلا کا یہ مہماں ہے باوفا
آیا تھا پیاسا پیاسا ہی مرنے کو یہ چلا
پھر حق کے روبرو ہو نہ کیوں آبرو سوا
پیاسا سوائے حر کوئی مہماں نہیں سنا
دیکھو تو قدر الفت سبط رسولؐ کی
اک خشک آب تیغ کی دعوت قبول کی

حال حر شہید پہ اے صاحب شعور
تحسین بھی ضرور ہے گر یہ بھی ہے ضرور
تحسین تو وفا پہ جو کی شاہ کے حضور
اور گریہ بے کسی پہ کہ ہے قبر کتنی دور
اب بھی بتولؑ وارد مقتل جو روتی ہیں
ماں بھی نہ روئے جیسا کہ وہ حر کو روتی ہیں

مانند صبح صاف کرو دل کو اب شتاب
تاجلوہ گر ہو چہرۂ حر مثل آفتاب
نظارۂ جمال غلام ابو تراب
لاریب ہے زیارت شاہ فلک جناب
لکھا ہوا تھا حر کی یہی سرنوشت میں
دوزخ میں رات کو تھا سحر کو بہشت میں

چہرہ ہے فرد دستخط منشی وفا
طغرائے نقش دوستی سبط مصطفا
آزار کفر کیلئے ہے نسخۂ شفا
عارض دو آفتاب دو آئینہ ضیا
اک آفتاب علم کا ہے اک یقین کا
اک آئینہ ہے شرع کا اور ایک دین کا

بڑھتا ہے تا دو ہفتہ ہر اک ماہ میں قمر
عارض یہ حسن کرتے ہیں پیدا زیادہ تر
اک شب بھی روئے حر کے مقابل نہیں مگر
یہ بدر رخ تو اوج ابد پر ہے جلوہ گر
وہ حسن عارضی ہے تو کیا اعتماد ہے
داغی ہے وہ یہ صاف وہ کم یہ زیاد ہے

کسی رو سے یاں ہو قدر مہ و آفتاب کو
مصحف پہ ہے شرف رخ پر آب و تاب کو
یہ مصحف وفا ہے رسالت مآب کو
مثل پسر عزیز ہے ام الکتاب کو
جاری ورق پہ چشم سے خوں ناب کیجئے
سرخی سے اس صحیفہ پہ اعراب کیجئے

اب وصف خط و خال قلمبند کیجئے
اس بند پر ستاروں کو اسپند کیجئے
دل مدح رخ کے لکھنے سے خرسند کیجئے
نقطہ پہ فخر چاند سے دہ چند کیجئے
وصف جبین و عارض و خال آشکارا ہے
خورشید میں قمر ہے قمر میں ستارا ہے

چہرہ ہے ماہ شان دو ابرو کرو خیال
یہ کون سا مہینہ ہے جس میں ہیں دو ہلال
اب تو یہ ہے ثنا در دنداں کی ہے محال
پاؤں دہن تو کچھ در دنداں کی دوں مثال
دنداں در عدن پہ دہن رشک درج ہے
بتیس آفتاب ہیں اور ایک برج ہے

اب مدح چشم حر کی نہ کیوں فرض عین ہو
جس پر کہ عین عفو جناب حسینؑ ہو
مد نظر جسے دل زہرا کا چین ہو
یہ عین کیوں نہ شیعوں کو پھر فرض عین ہو
ابرو کا ہے اشارہ کہ حاصل مراد ہے
میں مد عرض داشت ہویہ عین صاد ہے

فردوس کی نسیم جو آتی ہے خوشگوار
ہوتی ہے بند نرگس بیدار بار بار
پر وقت جنگ بند ہے کیوں چشم ہوشیار
عین عزائے سبط پیمبر ہے آشکار
وضع زمانہ دیکھ کے حر کو جو خشم ہے
مل کر پلک پلک سے سیہ پوش چشم ہے

دونوں لبوں کے وصف کا مضموں نیا ہے واہ
شیرینئ زباں پہ ہیں گویا یہ دو گواہ
دو شغل ان لبوں کے ہیں ہر شام و ہر پگاہ
ذکر الٰہ و منقبت ضیغم اللہ
شیرینی دہن کے رقم گر صفات ہوں
ہوں نیشکر قلم شکر ستاں دوات ہوں

اک رمز ہے جو کاکل و رخ ہیں یہ آس پاس
عالم کو صبح و شام کا کرتے ہیں روشناس
کاکل پہ حسن مصرعۂ واللیل کا قیاس
رخ سے ہوا ہے مطلع و الفجر اقتباس
پیدا قریب چہرہ کے جاوید زلف ہے
خورشید رخ ہے سایۂ خورشید زلف ہے

پائے حسینؑ سے جو سر حر کو ہے نیاز
یاں ہر بلند پست ہے ہنگام امتیاز
کرنا ہے فرق حر پہ سر عرش فحر و ناز
روز ازل سے حق نے کیا حر کو سرفراز
زانوئے شاہ تکیۂ خواب بہشت ہے
اس سر کے ہم نثار کہ کیا سرنوشت ہے

رخ پر عرق کے قطروں کا ہے دھوپ میں وفور
یا ہے گہر کا چشمۂ خورشید سے ظہور
ہے عازم جہاد جو گرمی میں یہ غیور
قطرے نہ سمجھو منہ پہ برستا ہے آج نور
پیاسا نثار ہوتا ہے اپنے امام پر
نیساں گہر فشاں ہے حر نیک نام پر

ابرو ہیں یا دو مصرعۂ یک بیت ذوالفقار
یا پھر عدود و فقرۂ شمشیر آبدار
شان جبیں سے رفعت گردوں ہے آشکار
ہے واقعی ہلال یہ ابروئے باوقار
یہ ماہ نو جبیں پہ جو بے اختلاف ہے
رویت کا یہ سبب ہے کہ مطلع بھی صاف ہے

حسن و جمال حر پہ ہے تائید کبریا
ماتھے کی وہ نمود وہ رخسار کی ضیا
رخ کے عرق نے آب بقا کا مزا دیا
چاہ ذقن میں چشمۂ حیواں نہاں کیا
اس چاہ میں جو بینئ انور کا نور ہے
روشن خضر کے چشمہ پہ یہ شمع طور ہے

پیش بیاض گردن حر صبح فرد شام
شمع حرم جھکاتی ہے گردن پئے سلام
صبح گلو پہ نور کے درجے ہوئے تمام
رومال فاطمہؑ کا بندھا ہے یہ وہ مقام
بس نور میں تو نور کا پیوند چاہئے
رومال فاطمہؑ کا گلو بند چاہئے

لوح بقائے مہر وفا حر کا سینہ ہے
باب علوم کی یہ ولا کا مدینہ ہے
کیا خوب اس سے کعبۂ دل کا قرینہ ہے
وہ کعبہ میں کہاں ہے جو دل کا خزینہ ہے
کعبہ بھی دل بھی خانۂ رب جلیل ہے
پر دل بنائے حق وہ بنائے خلیل ہے

وہ آستیں میں ہاتھوں کی طلعت کا ہے ظہور
فانوس کعبہ میں نظر آتی ہے شمع طور
کیا نور کا ہے ناخن انگشت پر وفور
تشیبہ ماہ نو سے جو دیں صاحب شعور
تشبیہ سے ہلال میں یہ آب و تاب ہو
بڑھ کر ہلال بدر نہ ہو آفتا ب ہو

طوبیٰ سے قد حر کی نہ کیوں قدر ہو سوا
تعظیم سرو قد کریں جس کی سب انبیا
جوش تصور قد موزوں سے بارہا
طوبیٰ کی یہ صدا ہے کہ طوبیٰ لکم فدا
تصویر قد حر اسے استاد کہتے ہیں
یہ وجہ ہے کہ سرو کو آزاد کہتے ہیں

اب زیور سلاح کو دیکھیں جوان و پیر
خود و سنان و جوشن و تیغ و کمان و تیر
ہے نقش نام اکبرؑ و اصغر کا دل پذیر
کیا جوشن کبیر ہے کیا جوشن صغیر
تیغ و سناں و تیر کا جوہر ہے آشکار
لاسیف و لافتےٰ کا یہ محضر ہے آشکار

وصف زرہ سے کھل گیا یہ راز سر بسر
گن لو کہ چارآئینہ ہے اور اک سپر
یہ پانچ مہریں صاف زرہ پر ہیں جلوہ گر
سمجھو نہ تم زرہ سوئے شہ اس نے آن کر
محضر لکھا ہے الفت آل رسولؐ پر
مہریں یہ پنچتن کی ہیں حسن قبول پر

طوبیٰ کی شاخ نیزہ کے شاہد ہیں جبرئل
قرص سپر ہے بدر شب قدر کی دلیل
تیغ رواں ہے معجزۂ سید جلیل
ہے آب بے نظیر تو ہے تاب بے عدیل
حیرت ہے ایک قبضہ میں برق و سحاب ہے
قدرت یہ ہے خدا کی کہ آتش میں آب ہے

وصف سمند حر میں ہے کلک قلم رواں
جس کے حضور موج ہوا نبض ناتواں
رکتا نہیں کہیں صفت تیغ دو زباں
نظروں پہ چڑھ کے پھرتی ہیں آنکھوں میں پتلیاں
برق شرر فشاں دم رفتار رن میں ہے
طاؤس مست ہے کہ خراماں چمن میں ہے

گر بہر قبض جان عدؤے شہ زماں
ہمراہ اس سمند کے ہوئے اجل رواں
راکب اشارہ باگ سے اتنا کرے کہ ہاں
پھر ہاں کے بعد موت کہاں اوریہ کہاں
دونوں کو گر تلاش کرو رزم گاہ میں
تو سن سر عدو پہ ملے موت راہ میں

شان و شکوہ آمد حر پر کیا خیال
یہ دبدبہ یہ طظنہ یہ جاہ یہ جلال
پڑھتا ہے یوں رجز وہ حضور صفت قتال
یاروں میں ہوں غلام شہنشاہ خوش خصال
ان سے جدا ہوں کفر کا جن کو مزا ملا
ان سے ملا ہوں ملنے سے جن کے خدا ملا

دیتا ہوں اس پہ جان جو زہراؑ کی جان ہے
مہماں ہوں اس کا موت کا جو میہمان ہے
اس کی امان میں ہوں جو کل کی امان ہے
وہ جس پہ مہرباں ہے خدا مہربان ہے
اب دامن حسینؑ ہے اور میرا ہاتھ ہے
میں اس کے ساتھ ہوں کہ خدا جس کے ساتھ ہے

بولا یہ ابن سعد یہ سب ہے سنا ہوا
ہم کچھ نہیں سمجھتے کہ تو کہہ رہا ہے کیا
تو آنکھ چار کرتا ہے آتی نہیں حیا
وہ پرورش یزید کی اور یہ تری دغا
حق نمک یزید کا کیا خوب اداکیا
تو وہ ہے جس نے گوشت سے ناخن جدا کیا

غصہ سے حر پکارا کہ بس بس زباں سنبھال
حق کو نہ بھول اپنے گریباں میں منہ کو ڈال
اور شور بخت کیسا نمک ہے کدھر خیال
تو ہی نمک حرام ہے میں ہوں نمک حلال
کیوں رحمت خدا کو تو لاتا ہے قہر میں
آب و نمک تو آیا ہے زہراؑ کے مہر میں

ناموس پنچتن پہ یہ فاقہ ہے تیسرا
کس نے انہیں بلایا ہے مہمان سچ بتا
پاس نمک یہی ہے کہ حضرت پہ ہوں فدا
دریا تھا مہر فاطمہ سو تم نے لے لیا
ملک یزید ہے کہ یہ ملک بتولؑ ہے
اب کل یہ کہیو نانا بھی اس کا رسولؐ ہے

پشتیں ہویں یزید تو کافر ہے اے عمر
پر تیرا باپ کون تھا دل میں خیال کر
حیرت ہے سعد کا پسر اور نحس اس قدر
میں بد نہیں ہوں نیک نہ تھا گو مرا پدر
گل کرکے شمع مرقد خیرالانام کو
روشن تو آج کرتا ہے کیا اپنے نام کو

خندق میں میرا باپ تھا کفار کی طرف
تیرا پدر تھا احمد مختار کی طرف
تو آج ہے یزید بداطوار کی طرف
اور میں ہوں ابن حیدر کرار کی طرف
انصاف کر کہ صاحب عزو شرف ہے کون
باطل کی سمت کون ہے حق کی طرف ہے کون

بولا عمر غرور سے کرتا ہے کیا کلام
ماتم میں ترے روئے گا کنبہ ترا تمام
مرنے کے بعد لاش سے بھی لیں گے انتقام
جائے گا تیرا سر پئے نذر امیر شام
حر نے کہا کہ دہشت بیجا نہیں مجھے
میں سر بکف ہوں فکر سرو پا نہیں مجھے

یہ کہہ کے حر نے کھینچ لی شمشیر خوش غلاف
اور کہہ کے یا حسینؑ ہوا عازم مصاف
حر جری کے سر پہ کیا فتح نے طواف
غصہ سے مثل مہر ہوا سرخ روئے صاف
جنبش سوئے یسار جو قطب یمیں نے کی
سکتے میں چرخ آگئے جنبش زمیں نے کی

نکلا ادھر سے جنگ کو حجاج کا پسر
سردار اہل میمنہ لشکر عمر
تلوار ایک ہاتھ میں اک ہاتھ میں سپر
بہر مدد گروہ مسلح ادھر ادھر
حر نے کہا کہ اس میں تو آج امتحان ہے
میں حیدری جواں تو یزیدی جوان ہے

وہ حملوں میں نہ ایک رہے گا ہزار میں
وہ بولا بے مثال ہے تو روز گار میں
غالب ہزار پر ہے صف کارزار میں
حر نے کہا اب اور صفائی ہے وار میں
اب ہوں غلام ابن شہ ذوالفقار کا
تب زور تھا ہزار کا اب سو ہزار کا

غصہ سے برق تیغ کا اس نے لگایا وار
خورشید پر ہو کیا اثر برق بے مدار
حر نے سپر پہ روک کے وہ تیغ آبدار
تیغ اپنی تول کر کہا یا شاہ ذوالفقار
چالاکی اس کو کہتے ہیں بس اتنی بات میں
یہ تیغ اس کے سر پہ وہ تیغ اس کے ہات میں

بیخود ہوا یہ تیغ جو ں ہی خود پر گئی
سینہ میں خود کاٹ کے سن سےاتر گئی
چلنے سے اس کے سانس عدو کی ٹھہر گئی
ظالم سے پوچھیے کہ جو دل پر گزر گئی
تن پر گرہ گرہ سے بکس کر زرہ کھلی
یہ کیا ہے بند بند کی پھر تو گرہ کھلی

حاضر شریک نام تھا اس کا جواں پسر
آکر ہوا شریک پدر نیزہ تان کر
یاں نیزہ مارا اور چلا تیر سا ادھر
للکارا حر ٹھہرتو جواں مرد ہے اگر
رستے سے مثل طالع برگشتہ پھر پڑا
پھرنا تھا بس کہ گھوڑے سے دو ہوکے گر پڑا

بولی ظفر یہ ضربت ہوش و حواس ہے
کیا بات ہے کہ حق ترا جوہر شناس ہے
بشاش ہو اگر دل محزوں اداس ہے
کوثر پہ کر نگاہ اگر تجھ کو پیاس ہے
جرأت پکاری جنگ میں گھبرا نہ جائیو
ہاں اے دلیر شمر کا سر لے کے آئیو

جوش دغا میں ہمت حر ہوگئی فزود
آگے بڑھا حسینؑ پہ پڑھتا ہوا درود
کیا بزدلوں کی اصل تھی لڑتے جو وہ حسود
ذرے تھے بے نمود تو قطرے تھے بے وجود
پھر سر بدن پہ تھے نہ بدن راہوارپر
تیغ آئی یا کہ برق گری پنبہ زار پر

کرتی تھی تیغ حر تو سر تیغ زن جدا
سہمے ہوئے تھے تیر سے ناوک فگن جدا
زخموں کے تھے کھلے ہوئے تن پر چمن جدا
مردم سے چشم چشم سے سر سر سے تن جدا
تھی قہر ضرب گرز تن بے شکوہ کو
کیا حر نے ریزہ ریزہ کیا کوہ کوہ کو

اعدا حضور تیغ سے کر سکتے کیا فرار
شکل کمند تھی خم جوہر سے آشکار
یا گل کھلایا واں ہوئی جاکر گلے کی ہار
میداں میں باغیوں کی خزاں میں ہوئی بہار
زخموں کے گل کھلاتی تھی ہر ایک وار میں
کرتی تھی سیر خون کے یہ لالہ زار میں

لڑتا تھا یوں یزیدیوں سے حیدری جواں
بے خوف رن میں حملہ کناں تھا یہاں وہاں
ناگاہ اک شقی کی لگی سینہ پر سناں
گھوڑے سے گر پڑا وہ جری ہو کے نیم جاں
آقا کو دی ندا کہ یہ خادم فدا ہوا
مولا غلام حق نمک سے ادا ہوا

کس وقت حر کی لاش پہ پہنچا علیؑ کالال
تھا وقت نزع توڑتا تھا دم وہ خوشخصال
سینہ ذرا تھا گرم بدن برف کی مثال
آغوش میں اٹھالیا شہ نے بصد ملال
چہرہ کو صاف کردیا گردو غبار سے
زانو پہ رکھ لیا سر حر شہ نے پیار سے

کچھ حرنے آنکھیں کھول کے دیکھا ادھر ادھر
پوچھا جو شاہ دیں نے تو بولا وہ خوش سیر
اک بی بی رونے آئی ہے خادم کی لاش پر
سنتا ہوں گر یہ ان کو نہیں دیکھتا مگر
شہ بولے فاطمہؑ ترے قربان ہوتی ہیں
اے حر یہ میری ماں ترے ماتم میں روتی ہیں

یہ سن کے جاں بحق ہوا وہ حیدری جواں
لاشے پہ حر کے روئے شہنشاہ انس و جاں
فرماتے تھے حسینؑ کہ اے میرے میہماں
میں کر سکا نہ کوی ضیافت تری یہاں
جب تو ملے گا بادشہ کائنات سے
کوثر کا جام دیں گے علیؑ اپنے ہاتھ سے

ہر چند شہ کے ساتھ تھے اصحاب نیک ذات
خود لائے حر کی لاش کو پر شاہ خوش صفات
نزدیک خیمہ رکھ دیا اور کھینچ دی قنات
رو کر حرم سے سبط نبی نے کہی یہ بات
کوئی عزیزیاں نہیں اس خوش صفات کا
پرسادو آ کے مجھ کو حر نیک ذات کا

راضی علیؑ ہیں اس سے تو خوشنود مصطفی
غربت میں بیکسوں کا دیا ساتھ مرحبا
پیاسے تھے ہم تو اس نے بھی پانی نہیں پیا
پہلے سبھو سے ہوگیا یہ فدیۂ خدا
محسن کو میرے مژدہ ہو جنت کی سیر کا
بخشو ثواب تم اسے اعمال خیر کا

یہ ذکر تھا کہ دیکھتے کیا ہیں شہ زمن
حر کے گلے سے خون کا دریا ہے موج زن
ہاتھ اپنا رکھ کے واں کیا زینبؑ سے یہ سخن
کھولو تبرکات کا صندوق اے بہن
حر پر ہے صدق و مہر و محبت کا خاتمہ
زخمی گلے پہ باندھوں گا رومال فاطمہؑ

رومال فاطمہؑ کا جو زیب گلو ہوا
افزوں گلوئے حر کی ہوئی زینت و ضیا
تھا بضقۂ رسول خدا کا یہ معجزا
نے زخم کا اثر تھا نہ تھا خون کا پتا
امت نے کچھ نہ پردۂ آل عبا کیا
زہراؑ کی بہووں بیٹیوں کو بے ردا کیا

بس اے دبیرؔ چاک فرشتوں کی حبیب ہے
اس نظم سے عیاں ہے کہ تائید غیب ہے
اپنے سخن کی آپ ثنا سخت عیب ہے
تجھ پر کرم حسینؑ کا بے شبہ و ریب ہے
خالق سے کہہ کہ عرض یہ میری قبول ہو
مرنے کے بعد شہ کی غلامی حصول ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.