جب شام ہوئی دل گھبرایا لوگ اٹھ کے برائے سیر چلے
Appearance
جب شام ہوئی دل گھبرایا لوگ اٹھ کے برائے سیر چلے
تفتیش صنم کو سوئے حرم ہم جان کے دل میں دیر چلے
گو بحر الم طوفانی ہے ہر موج عدوئے جانی ہے
اب پاؤں رکیں گے کیا اپنے اس دریا کو ہم پیر چلے
اب کام ہمارا یاں کیا ہے یہ آنا جانا بے جا ہے
جس وقت تمہاری صحبت میں ہم ہوں اور حکم غیر چلے
ہم سمجھے تھے یاں آئیں گے دن تھوڑا ہے رہ جائیں گے
پر دل کی حسرت دل میں رہی جب سوئے مکان غیر چلے
گو رنج جدائی ہے دل پر بے وقت ہے یہ دور ساغر
بیٹھے ہیں حبیبؔ احباب مگر اب تم بھی کہہ دو خیر چلے
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |