Jump to content

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

From Wikisource
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی (1935)
by محمد اقبال
295064جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی1935محمد اقبال

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہيں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہيں آتا بے آہ سحر گاہی

نوميد نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ!
کم کوش تو ہيں ليکن بے ذوق نہيں راہی

اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز ميں کوتاہی

دارا و سکندر سے وہ مرد فقير اولی
ہو جس کی فقيری ميں بوئے اسد اللہی

آئين جوانمردں ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شيروں کو آتی نہيں روباہی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.