جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں
جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں
فلس ماہی کو بتاتے ماہ روشن آپ ہیں
سیتے ہیں سوزن سے چاک سینہ کیا اے چارہ ساز
خار غم سینے میں اپنے مثل سوزن آپ ہیں
پیار سے کر کے حمائل غیر کی گردن میں ہاتھ
مارتے تیغ ستم سے مجھ کو گردن آپ ہیں
کھینچ کر آنکھوں میں اپنی سرمۂ دنبالہ دار
کرتے پیدا سحر سے نرگس میں سوسن آپ ہیں
دیکھ کر صحرا میں مجھ کو پہلے گھبرایا تھا قیس
پھر جو پہچانا تو بولا حضرت من آپ ہیں
جی دھڑکتا ہے کہیں تار رگ گل چبھ نہ جائے
سیج پر پھولوں کی کرتے قصد خفتن آپ ہیں
کیا مزا ہے تیغ قاتل میں کہ اکثر صید عشق
آن کر اس پر رگڑتے اپنی گردن آپ ہیں
مجھ سے تم کیا پوچھتے ہو کیسے ہیں ہم کیا کہیں
جی ہی جانے ہے کہ جیسے مشفق من آپ ہیں
پر غرور و پر تکبر پر جفا و پر ستم
پر فریب و پر دغا پر مکر و پر فن آپ ہیں
ظلم پیشہ ظلم شیوہ ظلم ران و ظلم دوست
دشمن دل دشمن جاں دشمن تن آپ ہیں
یکہ تاز و نیزہ باز و عربدہ جو تند خو
تیغ زن دشنہ گزار و ناوک افگن آپ ہیں
تسمہ کش طراز و غارت گر تاراج ساز
کافر یغمائی و قزاق رہزن آپ ہیں
فتنہ جو بیداد گر سفاک و اظلم کینہ ور
گرم جنگ و گرم قتل و گرم کشتن آپ ہیں
بدمزاج و بددماغ و بدشعار و بدسلوک
بد طریق و بدزباں بدعہد و بدظن آپ ہیں
بے مروت بے وفا نامہرباں نا آشنا
میرے قاتل میرے حاسد میرے دشمن آپ ہیں
اے ظفرؔ کیا پائے قاتل کے ہے بوسے کی ہوس
یوں جو بسمل ہو کے سرگرم طپیدن آپ ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |