جب کہو کیوں ہو خفا کیا باعث
Appearance
جب کہو کیوں ہو خفا کیا باعث
کہتے ہیں پوچھنے کا کیا باعث
بھولی صورت کی ہے خوبی ورنہ
ہو عدو دوست نما کیا باعث
میں نے کی آہ تو بولے ناگاہ
ہو گئے گرم ہوا کیا باعث
آتا ہے دیکھ کے انجم کو خیال
ہے فلک آبلہ پا کیا باعث
وعدہ کرنے کی ضرورت کیا تھی
پھر نہ آنے کا بھلا کیا باعث
گر نہ تھی ہجر میں امید وصال
جیتے رہنے کا ہوا کیا باعث
دم نکلتا ہے مرا رک رک کر
کند ہے تیغ قضا کیا باعث
چشمۂ خضر میں مے ہی بے شک
آب ہو عمر فزا کیا باعث
تم کرو ترک جفا کیا امکان
ہم کریں ترک وفا کیا باعث
نالہ کرتا نہیں ناظمؔ تاثیر
تیر ہوتا ہے خطا کیا باعث
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |