جب کہ فرقت میں موت آتی ہے
Appearance
جب کہ فرقت میں موت آتی ہے
حسرت وصل ساتھ جاتی ہے
کیوں صبا قبر بے کساں پہ کبھی
نہیں دو پھول بھی چڑھاتی ہے
بھول جاتی ہے قبر کی ظلمت
یاد زلف سیہ جو آتی ہے
جو ترا غم ہمیشہ کھاتا تھا
اب اسے خاک گور کھاتی ہے
کون اس خاک پر خراماں ہے
روح پھولے نہیں سماتی ہے
یہاں نقشہ بگڑ گیا اپنا
وہ پری آپ کو بناتی ہے
نہ چراغاں ہو قبر پر تو کیا
بے کسی تو جگر جلاتی ہے
جا کے کر دو قدم تو استقبال
تیرے کشتہ کی لاش آتی ہے
نہ پدر کو خبر نہ مادر کو
بے کسی کیا مزے دکھاتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |