جب کہ پہلو میں ہمارے بت خودکام نہ ہو
جب کہ پہلو میں ہمارے بت خودکام نہ ہو
گریے سے شام و سحر کیوں کہ ہمیں کام نہ ہو
لے گیا دل کا جو آرام ہمارے یا رب
اس دل آرام کو مطلق کبھی آرام نہ ہو
جس کو سمجھے لب پاں خوردہ وہ مالیدہ مسی
مردماں دیکھیو پھولی وہ کہیں شام نہ ہو
آج تشریف گلستاں میں وہ مے کش لایا
کف نرگس پہ دھرا کیونکہ بھلا جام نہ ہو
کر مجھے قتل وہاں اب کہ نہ ہو کوئی جہاں
تا مری جاں تو کہیں خلق میں بدنام نہ ہو
دیکھ کر کھولیو تو کاکل پیچاں کی گرہ
کہ مرا طائر دل اس کے تہ دام نہ ہو
بن ترے اے بت خودکام یہ دل کو ہے خطر
تیرے عاشق کا تمام آہ کہیں کام نہ ہو
آج ہر ایک جو یارو نظر آتا ہے نڈھال
اپنی ابرو کی وہ کھینچے ہوئے صمصام نہ ہو
ہے مرے شوخ کی بالیدہ وہ کافر آنکھیں
جس کے ہم چشم ذرا نرگس بادام نہ ہو
صبح ہوتی ہی نہیں اور نہیں کٹتی رات
رخ پہ کھولے وہ کہیں زلف سیاہ فام نہ ہو
اے ظفرؔ چرخ پہ خورشید جو یوں کانپے ہے
جلوہ گر آج کہیں یار لب بام نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |