جب یاد کیا اس نے پھر کس کی فراموشی
Appearance
جب یاد کیا اس نے پھر کس کی فراموشی
یوں آتے ہیں ہوش اکبرؔ یوں جاتی ہے بے ہوشی
بیٹھے ہوئے آنکھوں میں خود محو تماشا ہو
دیکھا کرو تم ہم کو ہم دیکھیں تو روپوشی
وہ تربت عاشق پر منہ ڈھانپ کر آئے ہیں
اللہ رے شرم ان کی اللہ رے رو پوشی
سنتے ہیں کہ تھا پہلے دریا میں نہاں قطرہ
اب بحر نے چاہی ہے قطرے سے ہم آغوشی
محشر بھی ہوا برپا اٹھے نہ ترے کشتے
بے ہوش ہے نام اس کا اللہ رے بے ہوشی
بھولے گا نہ اے اکبرؔ استاد کا یہ مصرع
ساقی دئے جا ساغر جب تک نہ ہو بے ہوشی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |