جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں
جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں
اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں
بزم میں تکتے ہیں منہ اس کا کھڑے اور وہ شوخ
نہ اٹھاتا ہے کسی کو نہ بٹھاتا ہے ہمیں
کیا ستم ہے کہ طریق اپنا رہ عشق میں آہ
کوئی جس کو نہیں بھاتا وہ ہی بھاتا ہے ہمیں
اس ترقی میں تنزل میں ہے کہ جوں قامت طفل
آسماں عمر گھٹانے کو بڑھاتا ہے ہمیں
بند کر بیٹھے ہیں اب آنکھ جو ہم تو اللہ
نظر آتا جو نہیں سو نظر آتا ہے ہمیں
ٹھنڈے ہونے کا بھی تا سمجھیں مزا اتنے لیے
چرخ مانند چراغ آہ جلاتا ہے ہمیں
اے خوشا یہ کہ وہ ہنسنے کے لیے روتا ہے
اپنی خورسندیٔ خاطر کو کڑھاتا ہے ہمیں
مل کے ہم اس سے جو ٹک سوویں تو دکھ دینے کو
بخت بد خواب جدائی کا دکھاتا ہے ہمیں
ہم ہیں وہ مرغ گرفتار کہ اپنے پر سے
وارنا جس کو کہ ہووے وہ چھڑاتا ہے ہمیں
لا کے اس شوخ ستم گر کے دو رنگی کے پیام
نہ ہنساتا ہے کوئی اب نہ رلاتا ہے ہمیں
سن سے جا بیٹھتے ہیں اس کے تصور میں ہم آہ
بزم خوباں میں کوئی پاس بلاتا ہے ہمیں
محو نظارہ ہوں کیا ہم کہ بہ قول جرأتؔ
اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |