جس کو کہ دسترس ہوئی دامان یار تک
Appearance
جس کو کہ دسترس ہوئی دامان یار تک
گلشن میں دہر کے وہی پہنچا بہار تک
جوں خار اس سے تو نہیں ہوتے جدا رقیب
مجھ کو رسائی کیوں کہ ہو اس گلعذار تک
ابرو کہاں نے وضع نکالی ہے یہ نئی
رہتا ہے تیر غمزہ مرے دل میں مار تک
پیارے کہیں نظر نہ لگے آئنے کی آج
بے طرح تجھ کو رہتا ہے وہ اے نگار تک
غفلت میں تیری کام ہمارا تمام ہے
کوئی کہہ دے اتنا یار تغافل شعار تک
ہم صرف دیکھنے کو ہیں محروم اور ہے
غیروں کو دسترس ترے بوس و کنار تک
ساقی شتاب جام صبوحی پلا مجھے
کیا جانئے بچوں نہ بچوں میں خمار تک
دشمن ہے میری جان کا عالم ترے لیے
یارو کوئی سناؤ یہ اس دوست دار تک
تجھ بزم میں جو بار جہاں دارؔ کو نہیں
رہتا ہے رہ گزر میں تجھے بار بار تک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |