Jump to content

جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا

From Wikisource
جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا
by عزیز لکھنوی
317956جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کاعزیز لکھنوی

جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا
نور جل جائے ابھی چشم تماشائی کا

رنگ ہر پھول میں ہے حسن خود آرائی کا
چمن دہر ہے محضر تری یکتائی کا

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

اف ترے حسن جہاں سوز کی پر زور کشش
نور سب کھینچ لیا چشم تماشائی کا

دیکھ کر نظم دوعالم ہمیں کہنا ہی پڑا
یہ سلیقہ ہے کسے انجمن آرائی کا

کل جو گلزار میں ہیں گوش بر آواز عزیزؔ
مجھ سے بلبل نے لیا طرز یہ شیوائی کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.