جلوۂ ارباب دنیا دیکھیے
جلوۂ ارباب دنیا دیکھیے
سوانگ ہے یہ بھی تماشا دیکھیے
سیر کو اٹھے تو ہیں وحشی مزاج
باغ جاتے ہیں کہ صحرا دیکھیے
گر چہ تل ہے اس کے منہ پر خوش نما
نحس ہے کیا ایک تارا دیکھیے
روئیے جتنا رلائے ہجر یار
گھر میں بیٹھے سیر دریا دیکھیے
چرخ مینائی موافق ہو اگر
دور دور جام صہبا دیکھیے
یا الٰہی خیر پھر آئے بہار
کیا حرارا لائے سودا دیکھیے
کل جو کچھ صورت ہوئی تھی مٹ گئی
اور ہی ہے آج نقشا دیکھیے
ابرووں میں پھر گرہ پڑنے لگی
بل طبیعت میں پھر آیا دیکھیے
دردمند چشم ہیں درماں طلب
دیکھتے بھی ہیں مسیحا دیکھیے
انتظار یار کہتا ہے یہی
زندگی جب تک ہے رستا دیکھیے
وصل ثابت ہے تفادل سے مگر
کب وہ آتا ہے زمانا دیکھیے
کیا بلائے بد ہے یہ باد خزاں
ہو گئی سب پھول پتا دیکھیے
بزم نا پرساں میں قسمت لائی ہے
بیٹھیے اپنی اگر جا دیکھیے
بحرؔ اگر چمکا ستارہ عیش کا
لیلیٔ گردوں کا مجرا دیکھیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |