جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا
Appearance
جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا
شمع جسے ہم سمجھے تھے شمع نہ تھی پروانہ تھا
شعبدے آنکھوں کے ہم نے ایسے کتنے دیکھے ہیں
آنکھ کھلی تو دنیا تھی بند ہوئی افسانہ تھا
عہد جوانی ختم ہوا اب مرتے ہیں نہ جیتے ہیں
ہم بھی جیتے تھے جب تک مر جانے کا زمانہ تھا
دل اب دل ہے خدا رکھے ساقی کو مے خانے کو
ورنہ کسے معلوم نہیں ٹوٹا سا پیمانہ تھا
فانیؔ کو کیسا ہی سہی پھر بھی تجھی سے نسبت تھی
دیوانہ تھا تھا کس کا تیرا ہی دیوانہ تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |