جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
Appearance
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے
ہوتا نہیں ہے اس لب نوخط پہ کوئی سبز
عیسیٰ و خضر کیا سبھی یک بار مر گئے
یوں کانوں کان گل نے نہ جانا چمن میں آہ
سر کو پٹک کے ہم پس دیوار مر گئے
صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں
گویا متاع دل کے خریدار مر گئے
مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں
تھا جن سے لطف زندگی وے یار مر گئے
گر زندگی یہی ہے جو کرتے ہیں ہم اسیر
تو وے ہی جی گئے جو گرفتار مر گئے
افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں
لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے
تجھ سے دو چار ہونے کی حسرت کے مبتلا
جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے
گھبرا نہ میرؔ عشق میں اس سہل زیست پر
جب بس چلا نہ کچھ تو مرے یار مر گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |