جن و پری
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھےکیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھےمولوی تسلی صاحب غدر 1857 سے پہلے ایک بزرگ دہلی میں گزرے ہیں۔ قوم کے سید تھے۔ چشتیہ نظامیہ طریقہ اچھی طرح حاصل کیا تھا۔ دوسرا کمال ان کا شاعری تھا۔ حمد اور نعت اور منقبت کہتے تھے۔ اور ایسی خوب کہتے تھے، جسے سن کر جاہل اور قابل عورت اور مرد، بڑے اور بچے وجد کرتے تھے اور یہ قبولیت صرف شاہجہاں آباد اور اس کی فصیل کے اندر نہ تھی بلکہ تمام ہندوستان میں پھیل گئی تھی۔ ہرنی کا معجزہ اوربہت سی مناجاتیں جو بمبئی اور کلکتہ میں فقیر سڑکوں پر دوکان دوکان پڑھتے پھرتے ہیں، اس کامقطع بتا دیتا ہے اور تسلی تخلص جتا دیتا ہے کہ یہ مولانا تسلی صاحب دہلوی کا تبرک ہے۔ان کے عہد میں قلعہ آباد تھا۔ حضرت ابو ظفر بہادر شاہ بادشاہ دہلی حمد و نعت میں بھی خوب شعر کہتے تھے۔ شیخ ابراہیم ذوق، حکیم مومن خاں صاحب مومن، میرزا اسد اللہ خاں غالبؔ شاعری کے استاد موجود تھے۔ دہلی اہل ہنر سے بھری پڑی کٹورہ کی طرح پڑی چھلک رہی تھی۔ مگر جب ان کی تصنیف کسی میلاد کی محفل یا محرم کی مجلس میں یا کہیں آپ کا کلام پڑھا جاتا تھا، تو یہ حضرات مؤدب ہو جاتے تھے، اور اشارہ سے کہتے تھے، خدا کے لئے چپ ہوجائیے اور مولانا کی نظم سن لینے دیجئے۔ ایک بار کسی مجلس عزا میں مرثیہ خواں اور حدیث خواں لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت خوب خوب بیان کی۔ سننے والوں کو رقت بھی ہوئی۔ واہ واہ بھی بہت ہوئی، مجلس کے خاتمہ پر ایک لڑکے نے جس کی بارہ برس کی عمر تھی، صف میں سے منہ نکال کر تسلی صاحب کا یہ شعر پڑھا،اب یہاں کہتا ہے جوشِ دل کہ لکھ ذکر حسینؑکربلا میں کیونکر آیا فاطمہ کا نور عینشعر سنتے ہی محفل میں قیامت برپا ہو گئی۔ پٹس مچ گئی۔ حاضرین چیخ اٹھے۔ پھر مولانا مناجاتیں کسی کو یاد بھی نہ کرواتے تھے۔ اور اپنی نام و نمود بھی نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ نوجوان اور لڑکے جن کے گلے میں ذرا سا کھٹکا ہوتا تھا، بے بلائے مولانا کی خدمت میں آتے تھے، اور آپ کا کلام سر اور آنکھوں پر رکھ لے جاتے تھے، اور یاد کر کے لوگوں کو سناتے تھے اور اپنے پڑھنے کی داد پاتے تھے۔ مولوی تسلی میری خوش دامن صاحبہ کے بڑے چچا تھے۔ اور وہ انہیں بڑے ابا کہا کرتی تھیں۔ فرماتی تھیں، بڑے ابا نے اپنا بیاہ نہیں کیا۔ ساری عمر اکیلے پن میں کاٹی۔ کپڑا سفید پہنتے تھے، مگر ایک کالی کملی ضرور بغل میں رکھتے تھے۔ ساون کی اندھیری جھکی ہوئی تھی۔ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ مینہ پڑتا ہوتا تھا۔ بجلی چمکتی، بادل گرجتا ہوتا، گھر میں بیٹھنے والوں کے دل کانپتے ہوتے تھے۔اور وہ ایکا ایکی اپنے پلنگ پر سے اٹھتے اور کہتے گھر والوں دروازے کی کنڈی اندر سے لگاؤ۔ میں قطب صاحب کو جاتا ہوں۔ گھر والے کہتے، بھلا حضرت یہ کون وقت قطب صاحب جانے کا ہے۔ مینہ کہتا ہے آج برس کے پھر نہ برسوں گا۔ اندھیرا گھپ ہے۔ خواجہ صاحب کی درگاہ یہاں سے گیارہ میل ہے۔ سڑک پر پانی ہی پانی ہوگا۔ مگر یہ کس کی سنتے۔ کملی سر پر ڈال یہ جا وہ جا۔ اور قطب صاحب کے آستانہ کو جا سلام کرتے۔ خواجہ صاحب اور سلطان جی صاحب اور روشن چراغ دہلی کی درگاہ کے صاحب زادہ ان کی خوبو سے خوب واقف ہو گئے تھے۔ انہیں ولی اللہ جانتے تھے۔ جب یہ بے وقت کسی درگاہ میں حاضر ہوتے تووہاں کے صاحب زادے ہاتھوں ہاتھ لیتے، اور انہیں آنکھوں پر بٹھاتے۔ کھانا کھلاتے، پانی پلاتے، سردی میں پہنچتے تو انگیٹھی میں آگ لاکر ان کے سامنے رکھتے۔حضرت مولانا تسلی صاحب نے اپنی زندگانی انہیں ہیرے پھیروں میں اور خواجگان چشت پرواری قربان ہونے میں پوری کردی۔ ایک بار محرم کے عشرہ کی رات کو شاہجہاں آباد سے سرشام ہی حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ کی طرف چل دیے۔ مگر اس سڑک سے نہیں جو دلی دروازہ سے سلطان جی کی طرف گئی ہے، بلکہ بٹیا کے غیر معمولی رستے سے جو شاہ عبد العزیز صاحب کی مہندیوں سے کھنڈروں اور ویرانوں میں سے اونچی نیچی ہوتی ہوئی گئی ہے۔ یہ کبھی کھنڈروں کا ایسا حصہ تھا، جس میں سے دن کے وقت گزرنا اکہ دوکہ کو دہلا دیتاتھا۔ اور اب کا کہنا ہی کیا ہے۔ یہ ویرانی نئی دہلی میں داخل ہوکر دولہن بن گئی ہے اور انجینئرنگ کے صیغہ کی مشاطہ نے اسے بنا سنوار کر گلستان ارم کا نمونہ کر دیا ہے۔الغرض مولانا تسلی صاحب چلتے چلتے اگر سین کی باؤلی تک پہنچ گئے۔ یہ باؤلی غدر سے لے کر اب تک اس بات میں بدنام ہے کہ یہاں جن اور پریاں رہتی ہیں۔ اور شہر کے رہنے والے ثقہ اور سچے لوگوں نے یہاں جن اور پریوں کے کرشمے دیکھے ہیں۔ وہ سیکڑوں اور ہزاروں ہیں، مگر میں نے انہیں کان دھر کر نہیں سنا، اور ان کا باور نہیں کیا۔ مگر مولانا تسلی صاحب کے ارشاد کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ایسے باخدا لوگ جو کچھ کہتے ہیں، بجا کہتے ہیں۔(۲)مولوی تسلی صاحب اگر سین کی باؤلی کے پاس پہنچے تو اپنے تئیں چاندنی چوک میں پایا۔ دوکانیں ہر قسم کی چیزوں اور سامانوں سے آراستہ تھیں۔ آدمیوں کی ہجوم سے گہما گہمی، چہل پہل ہو رہی تھی۔ سقہ پانی پلارہے تھے، کٹورہ بجارہے تھے، آواز لگا رہے تھے۔ پیا سوسبیل ہے حسین کے نام کی۔ مولانا ہکا بکا چلے جاتے تھے، جو دو چوہداروں نے آگے بڑھ کر مولانا کو سلام کیا۔ اور ہاتھ باندھ کر کہا کہ حضور والا نے آپ کو یاد کیا ہے اور فرمایا ہے امام حسین علیہ السلام کی فاتحہ دیتے جائیے۔ مولوی صاحب نے کہا، کہاں؟ چوبداروں نے کہا۔ دیکھئے یہ سامنے بادشاہی محل سرائے ہے۔ اس کے اندر تشریف لے چلئے۔ مولانا نے چوبداروں کے کہنے سے نظر اٹھائی تو واقعی ایک دروازہ دکھائی دیا، جو شاہجہاں کے لال قلعہ کے دروازہ سے زیادہ اونچا اور عمدہ بنا ہوا تھا۔ مولانا نے چوبداروں سے کہامیں فقیر آدمی ہوں۔ مجھے بادشاہ کے ہاں آنے جانے سے کیا سروکار۔ مگر امام حسین علیہ السلام کے نام پر میں قربان ہوں۔ جہاں لے چلوگے چلوں گا۔چوبدار خوش ہو کے آگے ہولئے اور مولانا کو محل سرائے میں لے پہنچے۔ ڈیوڑھی طے کر کے جب محل سرائے میں پہنچے تو محل سرائے کی تیاری دیکھ کر حیران ہو گئے۔ صحن، باغ، باغ کے چمن اور ان کی بہار دل فریب تھی، پھولوں کی خوشبو نے دماغ معطر کر دیا۔ صحن چبوترہ پر پہنچے تو دیکھا صدر دالان میں ہزار آدمی سے زیادہ چپ بیٹھے ہیں اور سب سیاہ پوش ہیں۔ ایک شخص تاج پہنے بیچ دالان میں بیٹھا تھا۔ مولانا کو آتا دیکھ کر وہ اٹھا اور لب فرش آکر اور مولانا کے ہاتھ کو بوسہ دے کر آپ کو لے گیا اور آپ کو اپنے برابر سوزنی پر بٹھایا اور نوکروں سے کہا مٹھائی جلد حاضر کرو۔ اور نوکروں نے سیکڑوں سینیاں اور کشتیاں مٹھائی کی، جن پر تورہ پوش پڑے تھے، لاکر رکھ دیں۔تاجدار نے کہا، مولانا شہدائے کربلا اور آل مصطفیٰ کی فاتحہ اس شیرینی پر دیجئے۔ اگرچہ فاتحہ درو دہم لوگ بھی پڑھتے رہتے ہیں، مگر میرے ہاں کا دستور ہے کہ آج شب کو جو نیاز ہوتی ہے، اس پر آپ جیسے بزرگ انسان سے ہی فاتحہ پڑھواتے ہیں۔ مولوی تسلی صاحب نے کہا، کیا مضائقہ، یہ کہہ کر فاتحہ کو ہاتھ اٹھائے اور فاتحہ پڑھ کر اور اپنی کملی سنبھال کر اٹھ کھڑے ہوئے، اور بادشاہ بھی تعظیم کو کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مولانا تبرک تو لیتے جائیے اور ایک بڑی چاندنی یا سفیدچادر میں دو من مٹھائی باندھ کر مولانا کی خدمت میں پیش کی گئی۔ مولانا نے کہا، نہ اس قدر تبرک کی ضرورت ہے، نہ میں گٹھر تبرک کا اٹھا کر لے جاسکوں گا۔ بادشاہ نے کہا یہ لڑکا لے جائےگا اور فوراً ہی ایک لڑکے نے جس کی عمر دس برس سے زیادہ نہ تھی، وہ گٹھر بغل میں مارا اور مولانا کے آگے آگے چلنے لگا۔چلتے چلتے جب مولانا حضرت کے آستانہ کی سڑک پر پہنچے، تو چونکہ شب شہادت تھی، بستی کے تعزیے گشت کے لئے اٹھے تھے، مشعلیں ساتھ تھیں، تاشے بج رہے تھے، جو مولوی صاحب کے ساتھی لڑ کے نے دومن کی گٹھری مولانا کے ہاتھ پر رکھ کر کہا، بس مجھے یہیں تک کا حکم تھا۔ اب میں آگے نہ جاؤں گا۔ یہ اپنا تبرک سنبھالئے۔ یہ کہہ کر لڑکا غائب ہو گیا۔ مولانا اس بوجھ کو کیا تھام سکتے تھے۔ تعزیوں کے ساتھ صاحب زادوں کو دیکھ کر مولانا نے کہا، دوڑو، دوڑو، نہیں تبرک کی بے ادبی ہوگی۔ صاحب زادے لوگ مولوی تسلی صاحب کی آواز پہچان کر بھاگے۔ مولانا دو قدم پر تو تھے ہی، جا پہنچے۔ کہا خیر ہے۔ مولانا صاحب نے فرمایا، ہاں خیر ہے۔ آج جنوں کے پھندے میں جا پھنسے تھے۔ یہ انہو ں دیا ہے۔ درگاہ شریف کے صاحب زادہ فرماتے تھے شیرینی بہت نفیس اور لطیف بنی ہوئی تھی۔ خدا مولانا کو جنت نصیب کرے۔ اب بھی آپ کی نظم میں یہ اثرہے کہ جس محفل میں پڑھی جاتی ہے، سن کر مسرور ہوتے ہیں اور سناٹا چھا جاتا ہے۔ مولانا کا دیوان قلمی شہر میں موجود ہے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |