جور پیہم کی انتہا بھی ہے
Appearance
جور پیہم کی انتہا بھی ہے
ایک کے بعد دوسرا بھی ہے
غیر نے بزم یار میں ہم سے
کچھ کہا ہے تو کچھ سنا بھی ہے
شوق سے دل مرا کرو پامال
یہی کمبخت کی سزا بھی ہے
ان کی ترچھی نظر سے ڈرتا ہوں
یہ ادا ہی نہیں قضا بھی ہے
کہتے ہیں وہ جو پوچھتا ہوں مزاج
آپ سے کوئی بولتا بھی ہے
نہیں واقف نسیمؔ سے کیا خوب
کوئی تم پر مٹا ہوا بھی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |