جوں عبرت کور جلوہ گر ہوں
Appearance
جوں عبرت کور جلوہ گر ہوں
البتہ کچھ ہوں میں پر کدھر ہوں
جوں شیشہ بھرا ہوں مے سے لیکن
مستی سے میں اپنی بے خبر ہوں
جو کہئے سو یاں سے ہے فروتر
کیا جانے میں کس مقام پر ہوں
اے صبر تنک تو رہ کہ تجھ سے
دو چار قدم میں پیشتر ہوں
چل دامن و آستیں تجھے کیا
لب خشک ہوں یا میں چشم تر ہوں
اے بخت سعید تیری دولت
اک یمن قدم سے ہوں جدھر ہوں
پروانے کی شب کی شام ہوں میں
یا روز کی شمع کی سحر ہوں
جی مانگے ہے خوش دلی کو قائمؔ
تو بیٹھ کے رو میں نوحہ گر ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |