جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
Appearance
جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
دیکھ اس کو مرے تھرائے پاؤں
خط کا لایا نہ ادھر سے وہ جواب
یوں ہی قاصد کے میں تھکوائے پاؤں
بد گمانی نہ ہو عاشق کی زیاد
اس نے شب غیر سے دبوائے پاؤں
ہاتھ سے یار کا دامن دے کر
ہر طرف پھرتے ہیں گھبرائے پاؤں
نجد کا دیکھ کے صحرائے وسیع
آتے ہی قیس نے پھیلائے پاؤں
خوش خرامی ہے صنم! تجھ پر ختم
کبک و طوطی نے یہ کب پائے پاؤں
تو تو سوتا رہا عاشق نے ترے
رات بھر آنکھوں سے سہلائے پاؤں
مجھ مسافر کے کسی نے ہرگز
گرم پانی سے نہ دھلوائے پاؤں
مصحفیؔ ہم کو طرب سے کیا کام
بیٹھے ہیں گور میں لٹکائے پاؤں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |