جو تجھ سے شور تبسم ذرا کمی ہوگی
Appearance
جو تجھ سے شور تبسم ذرا کمی ہوگی
ہمارے زخم جگر کی بڑی ہنسی ہوگی
رہا نہ ہوگا مرا شوق قتل بے تحسیں
زبان خنجر قاتل نے داد دی ہوگی
تری نگاہ تجسس بھی پا نہیں سکتی
اس آرزو کو جو دل میں کہیں چھپی ہوگی
مرے تو دل میں وہی شوق ہے جو پہلے تھا
کچھ آپ ہی کی طبیعت بدل گئی ہوگی
بجھی دکھائی تو دیتی ہے آگ الفت کی
مگر وہ دل کے کسی گوشے میں دبی ہوگی
کوئی غزل میں غزل ہے یہ حضرت وحشتؔ
خیال تھا کہ غزل آپ نے کہی ہوگی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |