جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے
Appearance
جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے
وگرنہ کرتے ہیں گل کار خار آنکھوں سے
کہاں ہے تو کہ میں کھینچوں ہوں راہ میں تیری
بسان نقش قدم انتظار آنکھوں سے
زبس کہ آتش غم شعلہ زن ہے سینہ میں
گریں ہیں اشک کی جاگہ شرار آنکھوں سے
میں یاد کر در دندان یار روتا ہوں
ٹپکتے ہیں گہر آب دار آنکھوں سے
ٹک آ کے دیکھ تو اے سرو قد مرا احوال
رواں ہے غم میں ترے جوئبار آنکھوں سے
چڑھاؤں دستۂ نرگس مزار مجنوں پر
جو دیکھوں آج میں روئے نگار آنکھوں سے
چمن میں کل کوئی تجھ سا پری نظر نہ پڑا
اگرچہ دیکھے ہیں جا کر ہزار آنکھوں سے
ہوا ہے دیدۂ بیدارؔ گل فشاں جب سے
گرا ہے تب سے یہ ابر بہار آنکھوں سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |