Jump to content

جو خاص بندے ہیں وہ بندۂ عوام نہیں

From Wikisource
جو خاص بندے ہیں وہ بندۂ عوام نہیں
by خواجہ محمد وزیر
316475جو خاص بندے ہیں وہ بندۂ عوام نہیںخواجہ محمد وزیر

جو خاص بندے ہیں وہ بندۂ عوام نہیں
ہزار بار جو یوسف بکے غلام نہیں

بھلا ہو کیا دل زاہد میں سوز الفت حق
کبھی جلانے کے قابل چراغ خام نہیں

گلا ہے چشم سخن گو سے خامشی کا ہمیں
دہن کے ہونے نہ ہونے میں کچھ کلام نہیں

تو آفتاب ہے زلف سیہ نہیں تو نہ ہو
چراغ روز کو کچھ احتیاج شام نہیں

عزیز عاشق گمنام کا ہے دل اس کو
نگیں وہ ہاتھ میں رکھتا ہے جس میں نام نہیں

بس ایک ہاتھ میں دو ہو کے پڑھ دوگانہ عشق
جو بے نماز ہے وہ قابل سلام نہیں

یہ سر جھکانا یہ منہ پھیرنا ہے مانع دید
مری نماز میں سجدہ نہیں سلام نہیں

وہ مجھ پہ مرنے لگی جو ہے مرے درپئے قتل
الٰہی اس کے سوا اور انتقام نہیں

فراق یار میں دست سبو اڑاتے ہیں خاک
یہ گرد باد ہے گردش میں اپنا جام نہیں

نہ ہنس رلائے گا تجھ کو خمار بادۂ عیش
مے نشاط تو اس بزم میں مدام نہیں

پھنسے نہ قید تعلق میں جو کہ ہے آزاد
چمن میں طائر نکہت اسیر دام نہیں

وہ دل ہو چاک نہیں عشق کا نشاں جس میں
نگیں وہ ٹوٹے محبت کا جس میں نام نہیں

رہے گا ہجر کا دن کب کٹے اگر شب وصل
مدام روز قیامت کو بھی قیام نہیں

بنے جو بال کا پھندا تمہاری تیغ کا بال
تو مرغ جان کے لئے بہتر اس سے دام نہیں

مے دو آتشۂ کفر و دیں سے خلق ہے مست
مگر شراب یہ ہم مشربو حرام نہیں

پکارا اپنا گدا کہہ کے مجھ کو اے شہ حسن
فقیر ہوں ترے در کا وزیرؔ نام نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.