جو دل مرا نہیں مجھے اس دل سے کیا غرض
Appearance
جو دل مرا نہیں مجھے اس دل سے کیا غرض
چلنی نہ ہو جو راہ تو منزل سے کیا غرض
ڈوبوں گا گر ہے میرے مقدر میں ڈوبنا
غواص بحر عشق کو ساحل سے کیا غرض
وہ دل کو دیکھتا ہے نہ اعمال ظاہری
لیلیٰ کے خواست گار کو محمل سے کیا غرض
سنتا ہے کون عاشقوں کی آہ و زاریاں
گوش چمن کو شور عنادل سے کیا غرض
ہم اس کے شیفتہ ہیں رقیبوں سے واسطہ
گل سے غرض ہے فوج عنادل سے کیا غرض
مرتا ہوں اور جا نہیں سکتا سوئے عدم
مجھ ناتواں کو طوق و سلاسل سے کیا غرض
کیوں در پئے تلاش ہیں احباب و اقربا
پرویںؔ شہید ناز کو قاتل سے کیا غرض
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |