جو راہ ملاقات تھی سو جان گئے ہم
Appearance
جو راہ ملاقات تھی سو جان گئے ہم
اے خضر تصور ترے قربان گئے ہم
جمعیت حسن آپ کی سب پر ہوئی ظاہر
جس بزم میں با حال پریشان گئے ہم
اس گھر کے تصور میں جوں ہی بند کیں آنکھیں
صد شکر کہ بے منت دربان گئے ہم
کل واقف کار اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات
جرأتؔ کے جو گھر رات کو مہمان گئے ہم
کیا جانیے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |