جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
Appearance
جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
آسماں پر دماغ رکھتے ہیں
ساقی بھر بھر انہیں کو دے ہے شراب
جو کہ لبریز ایاغ رکھتے ہیں
تیرے داغوں کی دولت اے گل رو
ہم بھی سینے میں باغ رکھتے ہیں
حاجت شمع کیا ہے تربت پر
ہم کہ دل سا چراغ رکھتے ہیں
آپ کو ہم نے کھو دیا ہے بیاںؔ
آہ کس کا سراغ رکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |