جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
جو یاد آئیں گی تیری باتیں تو چپ ہی پہروں رہا کریں گے
جو چاہو کہہ لو یہی خوشی ہے تو ہم بھی پھر کیوں گلا کریں گے
جو کچھ سنائے گی اپنی قسمت تمہارے منہ سے سنا کریں گے
کسے غرض ہے پھر آپ کو کیوں صنم کا بندا کہا کریں گے
جو یوں ہی ہم کو بھلائیں گے وہ تو ہم بھی یاد خدا کریں گے
عبث یہ ہر دم کا چونکنا ہے عبث یہ اٹھ اٹھ کے دیکھنا ہے
بھلا وہ ایسے ہوئے تھے کس دن وہی تو وعدہ وفا کریں گے
الٰہی قاصد ابھی نہ آئے کہ یہ توقع بھی ہے غنیمت
کیا گر انکار صاف اس نے تو دل کی تسکین کیا کریں گے
لو مل بھی جاؤ نہ کچھ تمہاری خطا تھی اس دم نہ کچھ ہماری
جو یہ ہی دل کے معاملے ہیں تو یوں ہی جھگڑے رہا کریں گے
ہمیں تو دیکھو یہ کیا ہوا ہے کہ ان کے کہنے کا پھر یقیں ہے
وہ جو جھوٹ یوں ہی کہا کریں گے عدو سے یوں ہی ملا کریں گے
ستم کی کیجے اگر شکایت تو کہتے ہیں بس تمہیں بھی دیکھا
یہاں کچھ ایسی غرض ہے کس کو کسی پہ ہم کیوں جفا کریں گے
یہ سچ ہے ناصح! نہ ہوگا ملنا نہیں ہے اچھا نہ ہوگا اچھا
پھر آپ کو کیا برا کہیں گے تو اپنے حق میں برا کریں گے
نظامؔ تقریر پھر عبث ہے جواب کچھ اس کا دے سکو گے
وہ اس کا ہر بات پر یہ کہنا کہ ہم تو اپنا کہا کریں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |