جو مے خانہ میں جاتا تھا قدم رکھتے جھجھکتا تھا
Appearance
جو مے خانہ میں جاتا تھا قدم رکھتے جھجھکتا تھا
کہ ساغر آنکھ دکھلاتا تھا اور شیشہ بھبھکتا تھا
تماشہ ہو رہا تھا ابر میں رونے سے کیا میرے
ادھر پانی برستا تھا ادھر لوہو ٹپکتا تھا
بڑا احساں کیا جو دل کو میرے کھینچ کر کاڑھا
کہ مدت سے مرے سینہ میں جوں کانٹا کھٹکتا تھا
ترے کوچہ میں میں نے آج دشت کربلا دیکھا
کوئی مارا پڑا تھا اور پڑا کوئی سسکتا تھا
گیا تھا تیلیا کپڑوں سے تو آئینہ خانہ میں
کہ اب تک خانۂ آئینہ اس بو سے مہکتا تھا
مزا لینے کے تئیں شیریں مقالی کا تری حاتمؔ
کھڑا منہ کو ادب سے دور نادیدہ سا تکتا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |