Jump to content

جو مے دل سے پئے کوئی تو پھر رخنے نہیں رہتے

From Wikisource
جو مے دل سے پئے کوئی تو پھر رخنے نہیں رہتے
by مضطر خیرآبادی
308623جو مے دل سے پئے کوئی تو پھر رخنے نہیں رہتےمضطر خیرآبادی

جو مے دل سے پئے کوئی تو پھر رخنے نہیں رہتے
ذرا یہ صاف کر لی جائے پھر تنکے نہیں رہتے

ہمارا مے کدہ محفوظ ہے تاثیر موسم سے
یہاں شیشے بھرے جاڑوں میں بھی ٹھنڈے نہیں رہتے

شراب ناب کے پینے سے ہاں اتنا تو ہوتا ہے
پڑے رہتے ہیں جو آنکھوں پہ وہ پردے نہیں رہتے

قیام مے کدہ کے واسطے اقرار کیوں ساقی
پلائے گا تو رہ جائیں گے اور ویسے نہیں رہتے

لباس ظاہری پر مے سے بے شک داغ پڑتے ہیں
مگر پینے سے اندر قلب کے دھبے نہیں رہتے

نہیں دیتا جو مے اچھا نہ دے تیری خوشی ساقی
پیالے کچھ ہمیشہ طاق پر رکھے نہیں رہتے

چھپائے کس طرح زاہد سے راز مے کشی کوئی
یہ حضرت مے کشوں کا حال بے پوچھے نہیں رہتے

نمازوں سے تھکے زاہد تو مے خانہ میں آ جانا
یہ اٹھنے بیٹھنے کے اس جگہ جھگڑے نہیں رہتے

خدا کے دامن رحمت سے اپنا دامن عصیاں
وہ کیا ٹانکے گا جس کے آنکھ میں ڈورے نہیں رہتے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.