Jump to content

جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں

From Wikisource
جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں (1926)
by یاسین علی خاں مرکز
304359جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں1926یاسین علی خاں مرکز

جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں
مری ذات عین کی عین ہے وہاں دوسری کا نشاں نہیں

وہی دو جہاں میں ہے مفتخر جیسے عینیت کی ہوئی خبر
وہی حکمراں ہے جہان میں وہاں کفر و دیں کا گماں نہیں

رہے غیریت کے حجاب میں جو خدا نما سے نہیں ملے
جو خدا کو ان سے طلب کئے رہی بات ان پہ نہاں نہیں

جسے ہو ثبوت وجود کا وہی حق شناس ہے با خبر
انہیں جملہ آوے خدا نظر وہ خدا کو دیکھے کہاں نہیں

میں وطن میں آپ سفر کیا جو قدم کو اپنی نظر کیا
ملا اپنا آپ پتہ مجھے جہاں غیریت کا بیاں نہیں

میں تو ایک مرکزؔ دہر ہوں جو خدا نما کے نشان سے
جو بتاؤں حق کا پتہ جسے رہے باقی اس کو گماں نہیں


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 97 years or less since publication.