جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
جو کچھ کہوں تو کہیں قینچی ہے زباں منہ میں
یہ ایک بات ہے قاصد جو بھیجتا ہوں تجھے
وگرنہ دل میں جو ان کے ہے وہ یہاں منہ میں
زمیں کا کر دیا پیوند ہم کو اے ظالم!
نہ اب بھی خاک پڑے تیرے آسماں منہ میں
نہ کان رکھ کے کسی نے سنی ہزار افسوس
تمام عمر رہی غم کی داستاں منہ میں
وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کہ دانت پیستے ہیں
ہم ایسے چپ ہیں کہ گویا نہیں زباں منہ میں
یہ بات کیا ہے جو ہونٹوں میں بڑبڑاتے ہو
کہو نہ شوق سے جو آئے میری جاں منہ میں
ڈرو اثر سے خدا جانے کیا ہو کیا کچھ ہو
گھٹا ہوا ہے ابھی آہ کا دھواں منہ میں
کبھی گرانے نہ دو آنسو حال پر میرے
لو آؤ پانی تو ٹپکاؤ میری جاں منہ میں
زبان پر ہے یہ کس کس کی تذکرہ اپنا
پڑی ہے بات نہ میری کہاں کہاں منہ میں
پھر ایسے وعدے سے تسکیں ہو کس طرح میری
نہیں ہے دل میں تمہارے اگر ہے ہاں منہ میں
اسی کا دھیان ہے جب تک کہ تن میں جاں ہے نظامؔ
اسی کا ذکر ہے جب تک کہ ہے زباں منہ میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |