جو کوئی در پہ ترے بیٹھے ہیں
Appearance
جو کوئی در پہ ترے بیٹھے ہیں
دونوں عالم سے پھرے بیٹھے ہیں
جوں نم اشک تو کس سے ہے خفا
یاں کوئی پل میں گرے بیٹھے ہیں
درد دل کیوں کہ کہوں میں اس سے
ہر طرف لوگ گھرے بیٹھے ہیں
کوئی آیا ہی نہ بھولا ہم تو
کب سے رستے کے سرے بیٹھے ہیں
گرم کر دے تو ٹک آغوش میں آ
مارے جاڑے کے ٹھرے بیٹھے ہیں
قلزم عشق کا الٹا ہے طریق
یاں جو ڈوبے سو ترے بیٹھے ہیں
کس کو دوں دوش تری مجلس میں
اپنے مشفق ہی نرے بیٹھے ہیں
ہم تو قائمؔ نہ ٹھہرتے یک دم
لیک یاں دل کے گھرے بیٹھے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |